google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 فرقہ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے پیٹھ کیوں پھیر لی ؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 15 اگست، 2020

فرقہ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے پیٹھ کیوں پھیر لی ؟

فرقہ خوارج   نے حضرت علی ﷛ کی اطاعت سے پیٹھ   کیوں پھیر لی ؟ 

قیامت کی بہت ساری چھوٹی نشانیوں میں سے ایک نشانی فرقہ خوارج ہے ۔ جس کے بارے آپ ﷺ نے پیشین گوئی  فرمائی تھی  حضرت ابو﷛ ہریرہ ﷛ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک(مسلمانوں کی )  دوعظیم جماعتیں آپس میں لڑائی نہ کر لیں۔ ان کے درمیان قتل وخونریزی  کا ایک عظیم معرکہ برپا ہو گا۔ حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو گا" ۔ مسلمانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی  جنگ صفین کے نام سے جانی جاتی ہےجس میں بہت سارے صحابہ کرام شہید ہوئے یہ لڑائی حضرت عثمان غنی ﷛ کی شہادت کے بعد حضرت علی ﷛ اور حضرت امیر معاویہ ﷛ کی فوجوں کے درمیان ہوئی۔آپ ﷺ کی وصال کے بعد  بہت  سے گروہ  نے آپ ﷺ کی تعلیمات کو چھوڑ دیا جسے سے لوگ فرقوں میں بٹنا شروع ہوگئے۔ انہی میں سے ایک فرقہ خوارج ہے یہ حضرت علی ﷛ کے گروہ کے باغی لوگ تھے یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب حضرت علی ﷛ اور امیر معاویہ ﷛ کے درمیان "تحکیم" کی گئی   تو ان باغی لوگوں نے حضرت علی ﷛ کی اطاعت سے پیٹھ پھیر لی  اور "حروراء" نامی ایک بستی  جو کہ کوفہ میں موجود ہے  آباد ہو گئے۔





v  فرقہ خوارج  کے نزدیک ایسے لوگ جو گناہ کبیرہ (َ زانی / شرابی)  میں ملوث ہوں کو  ابدی کافر اور دائمی  جہنمی  سمجھتے تھے۔ یہ نظریہ محض واضح گمراہی پر مبنی تھا۔ جبکہ تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ جب کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا بلکہ فاسق ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنے ان گناہوں کی معافی طلب کرے اور سچے دل سے توبہ کرے۔

v  اس فرقہ کے نزدیک حضرت علی  ﷛ اور حضرت معاویہ  ﷛ دونوں کو کافر سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان  صحابہ کرام ﷡ کو بھی کافر سمجھتے تھے جنہوں نے تحکیم کے فیصلے کی زبردست حمایت کی تھی

v  اس فرقہ کے نزدیک ان فاسق حکمرانوں سے لڑائی کرنا بھی جائز تھا خواہ انھوں نے کفر کا ارتکاب نہ بھی کیا ہو

v  یہ فرقہ خود کو  اہل ِعلم  سمجھتے تھے۔ عبادات کرنے میں بہت سخت مشقتیں اٹھانے والے تھے۔ اسی گروہ کا ایک بڑا معتبر  شخص "ذوالخویصرہ " تھا  جو اپنے آپ کو اہل علم کا حصہ سمجھتا تھاجس کے بارے میں نبی کریم ﷺ  نے فرمایا تھا " یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے  جیسے (بہت تیز) تیر شکار سے ( بالکل صاف آرپار) نکل جاتا ہے۔"

حضرت ابوسعید خدری ﷛ سے روایت ہے  کہ ایک دفعہ آپ ﷺ لوگوں میں مال تقسیم فرمارہے تھے۔ اسی موقع پر ایک شخص، جس کا نام "ذوالخویصرہ" تھا ، جو بنوتمیم قبیلہ سے تعلق رکھنے والاتھا  آیا اور کہنے لگا: اے محمد! یہ مال انصاف سے تقسیم کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو تباہ ہو! اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر کون عدل کرے گا۔ اگر میں اللہ کا رسول ہوکربھی  عدل نہیں  کروں گا تو میں ناکام و نامراد ہو جاؤں گا۔ اسی اثنا میں حضرت عمر﷛کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا " اسے جانے دو ، اس کے کچھ ایسے ساتھی ہیں کہ تم میں ایک شخص ان کی نماز کے مقابلے میں اپنی نماز کو بہت معمولی خیال کرے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں بے وقعت جانےگا۔ یہ لوگ قرآن کی تلاوت تو بہت کریں گے  مگر قرآن ان کے گلے سے اتر کر دل تک نہیں پہنچے گا (محض دکھلاوے کی عبادات کریں گے)۔ یہ دین سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر (تیزی) سے شکار کے آرپار ہو جاتا ہے۔ وہ تیر کے بھالے کو دیکھیں گے تو اس میں کچھ نہ ہوگا۔ پھر اس کے بانس کو دیکھیں گے تو وہاں بھی کچھ نہ ہوگا۔ پھر اس کی لکڑی کو دیکھیں گے تو وہاں بھی کچھ نہ پائیں گے۔ پھر اس کے پر کو دیکھیں گے تو وہاں بھی کچھ نہ ہوگا۔ وہ تولید اور خون میں سے تیزی سے گزر چکا۔ ( اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں  کو ہرگز یہ احساس تک نہ ہوگا کہ  یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی ، احمقانہ کرتوتوں کے باعث اسلام  کےدائرہ سے خارج ہو جائیں گے)۔ جس طرح ایک شکاری کسی ہرن کا شکار کرتا ہے۔ اس کا تیر جانور کے جسم میں داخل ہو کر دوسری جانب تیزی سے نکل جاتا ہے۔ شکاری یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ تیر جانور کو لگا ہی نہیں حالانکہ وہ اس کے جسم سے پار ہو چکاہوتا ہے) ان کی نشانی ایک سیاہ فام شخص ہوگا۔ اس کا بازو (کہنی اور کندھے کا درمیانی حصہ) عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا گوشت کے اس ٹکڑے کی طرح ہو گا جو مضطرب اور متحرک رہتا ہے۔ یہ گروہ اس وقت ظاہر ہوگا جب لوگوں میں اختلاف رونما ہو چکا ہو گا۔

تاریخ اسلام کی بہت سی کتب میں بعض روایات  ایسی   بھی نظر سے گزرتی ہیں جہاں سے پتہ چلتا ہے  کہ  حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں ہی اس جنگ سے ناخوش تھے۔ حضرت عمرو بن عاص نے دونوں طرف مرنے والوں کو دیکھا تو انہیں اتنا دکھ  اور صدمہ ہوا کہ وہ زاروقطار رونے لگے۔ پھر انہوں نے حضرت معاویہ کی اجازت سے حضرت علی  کو صلح کی دعوت دی۔ جو کہ ایک  خوش آئند اور  پرخلوص اقدام تھا اور حضرت علی  نے اس خلوص کا جواب خلوص  دل سے دیا۔جب دونوں جماعتوں کا اتفاق صلح پر ہوگیا اور سب نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیاتو عین اس وقت فرقہ خوراج نے علیحدگی اختیار کرلی اور اس فیصلے سے اعراض کر لیا   حضرت علی نے انھیں سمجھانے کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس   کو بھیجا انہوں نے فرقہ خوراج  سے مناظرہ کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس   کہتے ہیں : جب فرقہ  خورج حضرت علی ﷛ کے لشکر سے  علیحدہ ہوئے تو وہ سب ایک  جگہ جمع ہوگئے۔ ان کی تعداد لگ بھگ کوئی چھ ہزار تھی وہ سب آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ فیصلہ کرنے لگے کہ کیا  انھیں حضرت علی کے خلاف جنگ کرنی  چاہیے یا نہیں۔

ایک دن میں ظہر کی نماز کے وقت حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے امیر المومنین! آج ظہر کی نماز ذرا ٹھنڈی کرکے (تاخیر سے) ادا کیجئے۔ ہو سکتا ہے آج میں خوارج کے پاس جاؤں اور انھیں سمجھانے کی کوشش کروں۔ وہ کہنے لگے: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمھیں نقصان پہنچائیں گے۔  میں نے عرض کی : اللہ نے چاہا تو ایسا ہرگز نہ ہوگا۔

میں چونکہ خوش اخلاق تھا اور کسی کو ایذا نہیں دیتا تھا، اس لئے امیر المومنین نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے ایک بہترین خوبصورت یمنی لباس زیبِ تن کیا اور خوب بن سنور کر دوپہر کے وقت ان کے پا س جا پہنچا۔

ابن عباس﷛ کہتے ہیں کہ میں ان سے بڑھ کر عبادت گزار نہیں دیکھے۔ ان کی پیشانیاں سجدوں کے نشانات سے مزین تھیں۔ کثرت ِ عبادت سے ان کے  ہاتھ اونٹ کے اس حصے کی طرح ہوگئے تھے جو زمین پر لگنے کی وجہ سے سخت ہو جاتا ہے۔ انھوں نے صاف ستھری قمیصیں پہن رکھی تھیں۔ ان کے چہرے ان کی شب بیداری کے شاہد تھے۔ میں نے انھیں سلام کہا۔کہنے لگے: مرحبا، ابن عباس! کیسے آنا ہوا؟ ابن عباس : میں تمھارے پاس انصار ومہاجرین اور رسول اللہ ﷺ کے داماد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ سنو! ان لوگوں کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا اور وہ اس کی تفسیر وتاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ ان میں ایک گروہ کہنے لگا: قریش سے جھگڑا نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تو فرما چکا ہے: "بلکہ وہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ" ان میں سے دو یا تین آدمی کہنے لگے: ہم ان سے بات کر لیتے ہیں۔ ابن عباس : تمھیں نبی کریمﷺ کے داماد پر اور مہاجرین و انصار پر جو اعتراضات ہیں لاؤ پیش کرو۔ان لوگوں پر قرآن نازل ہوا، تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ان سے بڑھ کر قرآن کا عالم ہو۔ خوارج : ہمیں ان پر تین اعتراضات ہیں۔ ابن عباس! بیان کرو۔ خوارج: پہلااعتراض یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں انسانوں کو منصف بنایا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان کتاب اللہ میں موجود ہے کہ   " حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں" اب اللہ کے اس فرمان کے بعد انسانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو حَکَم بنائیں۔ ابن عباس: یہ تو ایک بات ہوئی ، دوسری کیا ہے؟ خوارج: انھوں نے ایک گروہ سے لڑائی کی، ان کے لوگوں کو قتل بھی کیا لیکن نہ تو کسی کو قید کیا نہ مالِ غنیمت جمع کیا۔ اگر وہ  لوگ مومن  تھے تو پھر انھوں نے ہمارے لئے ان سے لڑائی کرنا کیسے جائز قرار دیا اور ان میں سے کسی کو قیدی بھی نہ بنانے دیا؟ ابن عباس: تیسری چیز بیان کرو۔ خوارج: انھوں نے صلح کا معاہدہ لکھتے وقت اپنے نام سے امیر المومنین کا لفظ مٹا دیا، اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو پھر کیا وہ امیر الکافرین ہیں؟

ابن عباس: کوئی اور بات؟  خوارج : بس اتنی باتیں کافی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس ﷛نے ایسے ٹھوس  دلائل دئیے کہ وہ سب کے سب  لاجواب ہو کر دو ہزار خارجی فوری تائب ہو گئے اور باقی سب لڑائی کے لئے نکلے مگر سب کے سب قتل کر دیئے گئے۔

لمبی بحث کرنے  کے  بعد اس فرقہ کے کافی لوگوں نے حضرت علی ﷛  کی اطاعت قبول کرلی اور زیادہ تر لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور گمراہی  پر ڈٹے رہے۔جب حضرت علی ﷛نے  کوفہ کی مسجد میں اس گروہ  سے خطاب کیا تو وہ شرارتاََ مسجد کے کونوں میں کھڑے ہوکر آوازیں کسنے لگے "آپ شرک کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لئے کہ آپ نے لوگوں کو حَکَم بنایا مگر کتاب اللہ کو حَکَم نہ بنایا۔

حضرت علی ﷛  نے ان کو سننے کے بعد تحمل سے  جواب دیا: ہم تم سے تین باتوں کا عہد کرتے ہیں:

v    ہم تمھیں مساجد میں آنے سے نہیں روکیں گے۔

v    ہم مال فے میں سے تمھار حصہ بھی  نہیں روکیں گے۔

v    ہم تم سے لڑائی کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔ بشرطیکہ تم خود ہی شرنہ پھیلاؤ۔

اس کے بعدیہ لوگ بدعہدی اور ڈھٹائی کے عوض کھلی دشمنی پر اتر آئے اور انہوں نے ہر اس راستے میں ایک  ڈیرہ جما لیا جہاں لوگوں کا آنا جانا ہوتا تھااور ہر آنے جانے والے کو تنگ کرنے لگے اور جو بھی مسلمان وہاں سے گزرنا چاہتا تو یہ لوگ خون خرابہ پر اتر آتے یہاں تک کہ بات قتل تک پہنچ جاتی ۔اپنے اس جنگلی پن اور ہٹ دھرمی  کے عوض انھوں نے صحابی  رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن خباب بن ارت کو بھی قتل کر دیا اور ان کی اہلیہ محترمہ کا پیٹ پھاڑ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان  سے دریافت کیا کہ بتائیں کہ انھیں کس نے قتل کیا ہے؟ جواب میں ان لوگوں نے کہا: ہم سب  نے مل کر انہیں قتل کیا ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تیاری کی اور نہروان کے مقام پر ایک بھرپور لڑائی میں ان کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔ 

 

  

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو