آپ ﷺ نے مسلمانوں کےمابین ہونے والی جنگ صفین کی کیا پیشین گوئی فرمائی تھی؟
قیامت کی بے شمار نشانیوں
میں سے ایک نشانی جنگ صفین کا ہونا بھی بتایا گیا ہے آپ ﷺ نے اس جنگ
کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی ۔یوں تو اسلامی تاریخ میں بےشمار غزوات کا ذکر
موجود ہے جو مسلمانوں کا کفار کے درمیان لڑی گئیں ۔لیکن جنگ صفین وہ واحد جنگ ہے
جو صرف اور صرف مسلمانوں کے مابین لڑی گئی ۔اس جنگ کی بنیادی وجہ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد حضرت علی ابن
طالب اور حضرت امیر معاویہ کی فوجوں کے درمیان36ھ
میں ہوئی اس وقت شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان تھے۔۔حضرت علی ابن طالب
کی فوج کے امیر حضرت مالک
اشتر نے سنبھال رکھی تھی
جبکہ دوسری طرف حضرت امیر معاویہ کی فوج کی
کمانڈ حضرت عمرو ابن لعاص کے ہاتھ میں تھی۔
یہ
لڑائی دریائے فرات کے قریب ایک جگہ پر ہوئی ۔ایک اندازے کے مطابق شامی
فوج کے لگ بھگ 45000 ہزار اور حضرت علی کی فوج کے تقریبا
25000 ہزار لوگ شہید ہوئے۔جن میں زیادہ تر اصحابہ کرام
موجود تھے۔جنگ صفین میں حضرت علی کی فوج سے شہید ہونے والے صحابی رسول
ﷺ حضرت خزیمہ بن ثابت اور حضرت اویس
قرنی تھے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک ہرگز قائم نہ
ہوگی جب تک دو عظیم جماعتیں آپس میں لڑائی نہ کر لیں۔ ان کے درمیان قتل وخونزیزی
کا ایک عظیم معرکہ بپا ہوگا۔ حالانکہ دونوں کا مقصد (دعوی) ایک ہی ہو
گا"
آپ ﷺ نے اسی جنگ کے پیش
نظرحضرت عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے
عمار !"تو ایک باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوگا"
تاریخ اسلام کی بہت
ساری کتب میں بعض ایسی روایات بھی نظر سے گزری ہیں جن سے یہ بات علم میں آتی
ہے کہ حضرت علی اورحضرت معاویہ دونوں ہی اس جنگ کے
خلاف تھے۔ حضرت عمرو ا بن لعاص پھوٹ پھوٹ کر روئے جب
انہوں نے دونوں جانب شہیدہونے والوں کو دیکھا ہرطرف خون سے لت
پت لوگ بکھرے پڑے تھےگھوڑے شدید زخمی ہو چکے تھے۔اس شدید غم اور دکھ کی حالت
میں انہوں نے حضرت معاویہ کی اجازت سےحضرت علی ابن
طالب کو صلح کی دعوت دی۔ حضرت علی ابن
طالب نے صلح کا جواب انتہائی خلوص سے دیا چونکہ یہ ایک نہایت ہی پرخلوص
اقدام تھا ۔ حضرت علی ابن طالب نے حضرت عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا:
’’مقتولین بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جنگ روک دیجیے تاکہ ہم ان تمام مقتولین کو دفن کر
لیں۔‘‘دوسری طرف سے دعوت کو خلوص دل سے قبول کیا گیا اور دونوں جانب کے لوگ آپس
میں گھل مل گئے ۔
حضرت ابو وائل بن حجر
فرماتے ہیں کہ " ہم صفین میں ہی موجود تھے جب اہل شام کے ساتھ جنگ بہت
زور پکڑ گئی ۔ شامی ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص نے
حضرت امیر معاویہ کوفرما یا : ’’آپ حضرت علی ابن طالب کی جانب قرآن پاک بھیج
کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس سے انکار ی
نہیں ہونگے۔‘‘ حضرت امیر معاویہ نے ایسا ہی کیا اور ایک آدمی کو حضرت علی
ابن طالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ ’’ہمارے
اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب ہے موجود ہے جسے حضرت علی ابن طالب نے بڑے خلوص سے
اسے قبول فرمایا اور کہا"کہ بے شک میں لوگوں کو اس کی دعوت دینے کا زیادہ
حق دار ہوں۔ ٹھیک ہے! " ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔"
اللہ
کے نبی حضرت محمد ﷺ سمیت سارے صحابہ کرام تمام کے تمام انسان ( بشر
)تھے۔ ان سے بھی خطا ئیں ہوجایا کرتی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس
میں چپقلش بھی ہو جاتی تھی۔یہاں تک کہ بات اتنی بڑھ جایا کرتی کہ نوبت
جنگوں تک بھی پہنچ جایا کرتی تھی۔ وہ بھی ان سب حالات و واقعات
سے گزرے جن سے آج تک کہ انسا ن گزرتے اورسامنا کرتے آرہے ہیں
کیونکہ ہدایت کا سرچشمہ صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ قیامت تک آنے والے
تمام انسانوں کے لئے یکساں ہے۔ وہ لوگ بھی اجتہاد کیا کرتے تھے۔ میرے
خیال میں تمام اہل سنت کا اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد
ﷺ اور صحابہ کرام تمام لوگوں سے بڑھ کر نیک ، صالح ، پرہیز گار اور نبی کریم ﷺ
کی سیرت وسنت پر عمل کرنے والے تھے۔
ہم سب کی ذمہ داری کیا ہے؟
اگر
صحابہ کرام کے درمیان کبھی باہمی اختلافات واقع ہوئے ہونگےان کے باہمی
اختلافات، زبانی تلخ کلامی یا مشاجرات ِ پر مکمل خاموشی
اختیار کی جائے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہاں ہے اور اللہ کی ذات بہتر
جاننے والی اور بہترین فیصلہ کرنے والی ہے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں لب کشائی یا
اف تک نہ کی جائے۔ ان کے باہمی جھگڑوں ، باہمی اختلافات، زبانی
تلخ کلامی کو موضوع بحث بنا کرچند پیسوں یا جھوٹی شان و شوکت کے عوض
اچھالا نہ جائے ۔ بلکہ ان سےدرگزر یا صرف نظر کیا جائے اور اختلافات کی نشر
واشاعت نہ کی جائے ۔ اس لاحاصل بحث کو عوام الناس کے درمیان اچھا لنا امت کے
درمیان شروفسادپھیلنے یا فتنوں کو آگ دینے کے مترادف ہے اور آنے والی نسلوں
اورلوگوں کے دلوں میں محض صحابہ کرام کے بارے میں نفرت اور ظن پیدا ہوتا ہے۔
مسلمان
اور کلمہ گو ہونے کے ناطےہم سب کی ایک ذمہ داری ہے کہ صحابہ کرام کے
بارے میں زبانیں بند رکھی جائیں اور سب کا احترام کیا جائے۔ (اللہ
تعالیٰ ہم سب کے گناہ معاف فرمائے اور ہم سب کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق
عطا فرمائے، آمین)
allah ham sab ko maaf farmay
جواب دیںحذف کریں