google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 مساجد پر فخر کرنے والوں کے لئے کیا بربادی ہے؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 5 جون، 2021

مساجد پر فخر کرنے والوں کے لئے کیا بربادی ہے؟

 مساجد پر فخر کرنے والوں  کے لئے کیا بربادی ہے؟


 
محترم  قارئین کرام !   آج میں اپنے اس آرٹیکل میں قیامت  صغریٰ کی دونشانیوں کے بارے میں ذکر کرنے جا رہا ہوں  ان میں سے ایک  تو " مساجد کی زیبائش و آرائش پر فخر کرنا" اور دوسرا پہلو  "مساجد میں آوازیں  بلند کرنا" ہے۔ اور یہ دونوں نشانیاں دور حاضر میں پوری طرح سے ناصرف وقوع ہو چکی ہیں  بلکہ وقت کی بے لگام رفتار  کے ساتھ ساتھ ان میں شدت بھی نظر آر ہی ہے۔ ایک وقت تھا ، جب لوگ مساجد کے پاس سے انتہائی خاموشی اور احترام سے گزر جاتے تھے اور ہر وقت مساجد میں قرآن اور فقہ کی تعلیمات کا سلسلہ جاری و ساری رہتا تھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ  ناصرف روایات بدلیں بلکہ لوگوں کے افکار بھی بدل گئے اور یہ صرف دین اسلام سے اعراض کرنے کی وجہ  ہے ناہم خود تعلیمات سے آشنا ہو سکے اور نا آنے والی نسلوں کو سدھانے کی کوشش کی۔ نتیجہ : ہم خود بھی گمراہ اوربچے بھی گمراہ۔ یوں تو مساجد کو اللہ کی نشانیاں  اور اللہ رب العزت کاگھر کہاں جاتا ہے، روئے زمین پر اطمینان کی جگہ مساجد کو ہی حاصل ہے۔ اہل ایمان کے لئے مساجد کی کیا اہمیت ہے وہ ان سے بڑھ کر کوئی اور نہیں جان سکتا۔دین اسلام میں مساجد کا تقدس اور توقیرپر بہت زور دیا گیا ہے۔  آپ ﷺ نے فرمایا"مساجد کو گزرگاہ نہ بناؤ"    یعنی مساجد کی تعظیم اور تقدس  کو پامال  نہ کرو  ہمارے معاشرے میں  بہت سی مساجد ہیں جو عبادات کےلئے کم اور لوگوں کی سیلفیاں لینے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی مستیوں کے زیادہ کام آ رہی ہیں۔ان میں فیصل  مسجد، بادشاہی مسجد، مسجد بھونگ، مسجد سکینۃ الصغری ٰ (مسجد جتوئی) اور دیگر ایسی بہت سی مساجد ہیں   جو بناوٹ اور سجاوٹ   میں اپنی مثل آپ ہیں۔



مساجد کی دیواروں کو مختلف رنگوں اور نقشوں سے مزین کرنا، پھر ان میں مختلف اشیاء کی اشکال  بنانا،  قیمتی رنگین اورمخملی قالین بچھانا، مساجد کی چھتوں میں کانچ یا شیشے سے نت نئے نقوش بنانا ،چکاچونددمکتی اور مہنگی  لائٹوں سے مساجد کو بقعہ نور بنانا، مساجد کے دروازوں پر دیدہ زیب ڈیزائن  بنانا، مساجد کے فرش پر اعلی و قیمی پتھر لگانا اور اس پر بھی بیل بوٹے کے نقوش بنوانا وغیرہ  ،ہماری  سوچ کے برعکس  یہ آرائشی و زیبائشی  اخراجات  تو کبھی کبھار  اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر ہم اس سجاوٹ و آرائش اور رنگ برنگی  روشنیوں کے اخراجات جمع کریں۔ تو اس رقم سے متعدد نئی مساجد کی تعمیر کر سکتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں راشن دے سکتے ہیں، ننگے کے جسم کو ڈھانپ سکتے ہیں، بے روزگار انسان  کو کاروبار میں فائدہ دے سکتے ہیں، کسی قرض دار کا قرض اتارنے میں مدد کر سکتے ہیں ۔فضول خرچ کرنےوالوں کو ناصرف شیطان کا بھائی کہا گیا ہے بلکہ اسلام میں اس کی سختی سے مزحمت کی گئی ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا" اللہ رب العزت کے نزدیک آبادیوں  میں سب سے زیادہ محبوب  جگہ مساجد  ہیں  اور بدترین جگہ بازار  ہیں"  مسجد کا تقدس  اس حدیث  سے بھی واضح ہوتا ہے  لیکن افسوس! کہ ہم نے ان کو تفریح مقامات میں استعمال کرنا  شروع کر دیا ہے۔ درحقیقت مساجد عبادات کے لئے بنائے گئے اللہ کے  وہ گھر ہیں۔ جنھیں اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے اجروثواب ،عبادات و تعلیمات حاصل کرنے کی نیت سے تعمیر کرتے ہیں۔ مگر قرب قیامت  میں کچھ لوگ ایسی مساجد تعمیر کریں گے اور انھیں قیمتی نقش و نگار  سے مزین کریں گے کہ وہ عبادات کے لئےبالکل استعمال نہیں ہونگی صرف دکھلاوا ہوگا اور ہر شخص اپنی بنائی ہوئی مسجد کے نقش ونگار اور بناوٹ سجاوٹ پر تکبراور فخر گا۔ اور بعض اوقات اسے پبلسٹی  کرانے کے لئے  ذرائع ابلاغ  پر نشر بھی کرے گا مقصد صرف اور صرف دکھلاوا ہوگا۔ نمازیوں کے دل عبادت سے ہٹ کر ان کی ظاہری سجاوٹوں میں لگ جائیں گے۔اور وہ گمراہی  اور بربادی  کا ایندھن ہو نگے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا " قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک لوگ مسجدوں پر فخر نہ کرنے لگیں

صحابہ کرام نے بھی  امت  کی بھلائی اور خیرخواہی کے لئے  خبردار کیا ہے کہ وہ کہیں ذکرو  عبادت اور اطاعت خداوندی  سے توجہ ہٹا کر مساجد کی عمدہ سے عمدہ تعمیرات  اور ان کی بناوٹ سجاوٹ  میں مشغول نہ ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا "تم بھی مساجد کی اسی طرح آرائش وزیبائش کروگے جس طرح یہودو نصاریٰ نے (اپنے عبادت کدوں کی ) سجاوٹ کی تھی"

امام  بغوی ؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ  "یہود و نصاریٰ نے اس وقت اپنی عبادت گاہوں کو نقش و نگار سے مزین کرنا شروع کیا تھا۔ جب انھوں نے اپنی کتابوں میں پوری طرح سے  ردوبدل کر دی تھی"یعنی ان احکامات  کو پس پشت ڈال دیا تھا  جو انجیل، زبور، اور تورات  میں اللہ نے بیان فرمائے ہیں۔

ایک اور مقام پر امام  خطابی ؒ کچھ اس طرح رہنمائی فرماتے ہیں کہ" یہودونصاریٰ نے اپنےکلیسے اور گرجے کی   درودیوار وں کو  اس وقت نقش ونگار سے مزین  کیے ،جب انھوں نے آسمانی  کتب میں ردوبدل  کی، چنانچہ انھوں نے دین کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کرکے زیبائش  و آرائش کو اپنا مطمح  نظر بنالیا"  

انھی لوگوں کے لئے اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا" یہی لوگ ہیں جو ایمان کے بدلے گمراہی خریدتے ہیں وہ بھی بہت تھوڑی قیمت پر"



میرا آج کا آرٹیکل لکھنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مساجد کی دیکھ بھال نہ کی جائے یا ان کا فرش بالکل اچھا نہ بنایا جائے، یا مسجد کی تعمیر میں کاہلی یا سستی کا مظاہرہ کیا جائے ااور جان بوجھ کر اس میں نقص رکھا جائے  بلکہ آج کی بات اس طرف توجہ طلب  ہے  کہ جس کام سے آپ ﷺ نے منع  فرمایا اور اللہ رب العزت کو ناپسند ہے وہ صرف یہ ہے کہ مساجد کی زیبائش و آرائش میں مبالغہ آرائی  اور اسراف سے کام نہ لیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نیکی کرتے کرتے گناہ کے مرتکب بن جائیں۔

ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا " جب تم مساجد کے تزئین و آرائش میں مبالغہ کرنے لگو گے اور قرآن مجید کے نسخوں پر نقش ونگار بنانے لگ جاؤ گے تو تمھاری بربادی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔"

یہ بات مساجد تک محدود نہیں بلکہ قرآن کے بارے میں بھی ارشاد فرمائی گئی ہے ، جیسے ہم قرآن کو پڑھنے کی بجائے خوبصورت اور دیدہ زیب ، رنگارنگی کپڑوں کے غلافوں میں لپیٹ کے رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح  آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کے لئے یہ بات بھی بہت واضح انداز میں بیان فرمائی" کہ قرب قیامت مساجد میں آوازیں بلند کی  جائیں گی اور ان میں بحث و جدال کیا جائے گا"

آج اگر  ہم اپنی مساجد کا حال دیکھیں تو اس سے مختلف نظر نہیں آتا جس بات کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا ۔ لوگو نماز ادا کرنے سے پہلے بھی کلام کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور نماز کی ادائیگی کے بعد میں بحث ومباحثہ میں مشغول نظر آتے ہیں یہاں تک لوگ گروپس میں بیٹھ کر ٹھٹھہ مذاق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، یہی وہ تربیت ہے جو ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں یقین کریں جمعۃالمبارک کے دن مساجدمیں بچوں کی اونچی آوازیں اور نماز کی پرسکون ادائیگی  میں رکاوٹ کا  باعث بنتے ہیں ۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ ایسے گناہوں سے ہم سب کو بچنے کی توفیق  عطا فرمائے۔۔۔۔ آمین

 

 

  

 

5 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو