google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 آپ ﷺ نے عرب کی چراگاہوں کے بارے میں کیا پیشن گوئی فرمائی۔ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 15 جنوری، 2024

آپ ﷺ نے عرب کی چراگاہوں کے بارے میں کیا پیشن گوئی فرمائی۔

آپ ﷺ نے عرب کی چراگاہوں کے بارے میں کیا پیشن گوئی فرمائی۔

دوستو! اہل عرب کے لئے میں پہلے بھی کئی آرٹیکلز آپ سب کے گوش گزار کر چکا ہوں۔اہل عرب کے لیے جو پیشن گوئیاں آپ ﷺ کی ذات ِ اقدس نے امت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے فرمائی ہیں ۔ وہ سب اپنے مقررہ وقت پر نمایاں ہوتی جارہی ہیں۔

کہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ عربوں کے لئے ہلاکت ہے، تو کہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اہل عرب کم اور عیسائی زیادہ ہو جائیں گے،کہیں یہ فرمایا گیا کہ اہل اونچی اونچی عمارتیں قائم کرلیں اور اس پر اترائیں گے، اہل عرب کو ہلاک کردینے والا فتنہ کیسا ہوگا؟ غرض یہ کہ ہر طرف  عرب کے لئے ہلاکت کا  ہی سامان  ہے۔



آج کا عنوان بھی اہل عرب کے لئے ہے جس میں چند اور نشانیاں بھی ذکر کی گئی ہیں۔ہم لوگ یہ بات تو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اہل عرب کا تقریبا کل رقبے کا ستر فیصد حصہ غیر گنجان، بنجر اور ویران صحراؤں پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس زیادہ تر  پہاڑ بھی سنگلاخ  اور خشک چٹانوں   پر مشتمل ہیں۔ یہ سرزمین زیادہ تر تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سعودیہ عربیہ  75 فیصد ، ایران 45 فیصد،عراق 70 فیصد جبکہ کویت  90 فیصد تیل حاصل کرتا ہے۔ اہل عرب میں زیادہ تر کنسٹرکشن کا کام چلتا رہتا ہے۔ آئے دن  کوئی نہ کوئی بلڈنگ توڑی جاتی ہے اور پھرپہلے سے بھی زیادہ اونچی بنائی جاتی ہے۔ اگر ہم عرب ریاستوں کو دیکھیں تو بلند و بالا عمارتیں بنانے اور آئے دن نت نئے منصوبے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

آپ ﷺ نے قیامت کی بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی کے عرب میں چراگاہوں اور نہروں کا ظہور ہوگا۔ جیسے ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک سرزمین عرب چراگاہوں اور نہروں میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اور جب تک ایک سوار عراق اور مکہ کے درمیان سفر نہ کر لے جسے محض راستہ بھول جانے کے سوا کسی نقصان کا خوف نہ ہو۔ اور جب تک "ہرج" کی کثرت نہ ہو جائے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ یہ ہرج کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا قتل وخونریزی۔"


اسی طرح آپ ﷺ نے اسی روایت کو دوسرے مقام پر کچھ یوں ارشاد فرمایا " قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ مال کی کثرت نہ ہو جائے۔ مال کی ریل پیل اس قدر ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر کسی حاجت مند کو تلاش کرے گا مگر اسے کوئی ایسا شخص نہ مل سکے گا جو اس مال کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔ اور جب تک سرزمین عرب چراگاہوں اور نہروں کی زمین نہ بن جائے۔"

چراگاہوں کے سرسبز و شاداب  ہونے کے بارے میں مزید ایک طویل حدیث کا ذکر آپ کے ساتھ کرتا ہوں تاکہ موجودہ حالات اور بیان کی گئی نشانی  اور واضح ہو سکے تاہم یہ نشانی پوری نہیں ہوئی لیکن شروع ہو چکی ہے یوں کہوں تو ابتدائی حالات شروع ہو چکے ہیں۔

ایک روایت کے مطابق حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آپ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک کے سفر پر روانہ تھے۔ آپ ﷺ  نمازیں جمع کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء  کو جمع کرکے ادا فرمایا۔ ایک روز آپ ﷺ  نے نماز کو مؤخر کر دیا، پھر نکلے اور مغرب وعشاء کو جمع کرکے ادا کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ  نے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگ کل ان شاء اللہ تبوک کے چشمے پر پہنچو گے۔ تم سورج کے بلند ہو جانے کے بعد ہی  وہاں پہنچو گے۔ تم میں سے جو بھی وہاں پہنچ جائے  اسے چاہیے کہ وہ اس چشمے کے پانی کو میری آمد تک استعمال نہ کرے، معاذفرماتے ہیں کہ ہم لوگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دو شخص ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ چشمے سے پانی بڑی مشکل سے تھوڑا تھوڑا نکل رہا تھا۔ آپ ﷺ نے ان دونوں سے پوچھا: کیا تم نے یہ پانی استعمال کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے ان دونوں پر بہت ناراضی اور خفگی کا اظہار کیا۔ پھر صحابہ کرام نے چشمے کا پانی اپنے ہاتھوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کیا حتی کہ وہ کچھ مقدار میں جمع ہو گیا۔ آپ ﷺ نے اس پانی سے اپنے ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور پھراس پانی کو واپس چشمے میں ڈال دیا۔ پانی ڈالتے ہی چشمہ پوری  قوت سے اُبل پڑا اور نہایت کثرت اور تیزی سے بہنے لگا۔ لشکر کے لوگوں نے خوب سیر ہو کر پیا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا "اے معاذ! اگر تمھاری عمر نے وفا کی تو تم دیکھو گے کہ یہ سارا علاقہ باغات اور آبادی سے معمور ہو جائے گا۔"  

اہل علم کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے آب وہوا کی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشیں  بمعہ برف باری ہو رہی ہے۔ جس سے مسلسل پیداوار اور خوشحالی کی کثرت ہو رہی ہے۔  اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر ہے کہ وہ صحرائے عرب  کو باغات، میدانوں اور گھنے سایوں میں تبدیل کردے۔وہ چاہے تو ہرے بھرے باغات کو صحراؤں میں تبدیل کردے اگر ہم سورۃ قلم  میں باغ والوں کا قصہ پڑھ لیں تو اللہ رب العزت کی یہ بات اور بھی واضح ہو جائے گی۔تاہم میرا مقصد اہل عرب کی موجودہ صورتحال بیان کرنا ہے اس لئے آج اگر سرزمین تبوک کو دیکھیں تو بڑی بڑی زرعی سکیموں کی صورت  ہمارے سامنے ہے جو دوردراز علاقوں تک پھیلتی جارہی ہیں۔ یوں کہوں کہ سنگلاخ اور خشک چٹانیں اب تیزی سے سرسبز و شاداب ہو رہے ہیں، موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پہاڑوں پر برف پڑنا شروع ہو گئی ہے جس سے چشمے اور نہروں کا ظہور ہو رہا ہے۔

  

5 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو