google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 13- چوری کرنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 6 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 13- چوری کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                         13- چوری کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں تیرھواں گناہ چوری کرنا ہے ۔ اس سے پہلےتواتر سے کئی آرٹیکل جو میں تفصیل سے شئیر کر تا آرہا ہوں اگر آپ ان کو پڑھنا چاہیےتو دئیے گئے ناموں پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں   ان میں سے  بھوکوں اور ننگوں کی حیثیت کے مطابق مدد نہ کرنا، بلاعذر بھیک مانگنا   کسی جاندار کی تصویر بنانا شامل  ہیں۔

چوری، معاشرتی بگاڑ اور بدعنوانی کی ایک بدترین شکل ہے جسے اسلام میں ایک سنگین جرم اور گناہ قرار دیا گیا ہے۔ چوری کا مطلب صرف کسی کی مادی اشیاء یا دولت چوری کرنا نہیں، بلکہ اس کے بہت سے مختلف پہلو ہیں جو انسان کو اخلاقی اور روحانی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسلام میں چوری کو سختی سے منع کیا گیا ہے، اور قرآن و سنت میں اس کے لئے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں تاکہ معاشرتی نظام میں عدل و انصاف کو برقرار رکھا جا سکے۔

 


چوری کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دوسروں کی ملکیت یا دولت کو چھپ کر یا دھوکہ دے کر اپنے قبضے میں لے، بغیر اس کی اجازت یا حق کے۔ یہ عمل نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ اخلاقی اور دینی لحاظ سے بھی ایک بڑا گناہ ہے۔ چوری کے ذریعے دوسروں کا مال ہتھیانا ناصرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے بلکہ اس سے لوگوں کے درمیان اعتماد بھی ختم ہوتا ہے۔

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق، چوری کرنا ایک گناہ کبیرہ (بڑا گناہ) ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت کی ہے، جو انڈا چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے، اور جو رسی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے۔" یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ چوری، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اسلام میں سخت منع کی گئی ہے اور اس کے لئے سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔

 

اسلام میں چوری کی ممانعت

 

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کے ہر پہلو کو نظم و ضبط میں لاتا ہے۔ چوری کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، اور قرآن مجید میں چوری کرنے والوں کے لئے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

 

اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں  "چور مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ان کے اعمال کے بدلے میں، یہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے سزا ہے اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔"یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ چوری ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزا سخت ہے تاکہ معاشرتی نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔

 

چوری کی مختلف اقسام

 

چوری کی بہت سی اقسام ہیں، اور یہ صرف مادی اشیاء کی چوری تک محدود نہیں۔ درج ذیل چوری کی مختلف اقسام ہیں جن سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے:

 

مالی چوری: کسی کی دولت، جائیداد یا مال و اسباب کو چوری کرنا۔

وقت کی چوری: کام کے دوران وقت کی بربادی، ملازمین یا ملازموں کا وقت ضائع کرنا بھی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔

حقوق کی چوری: کسی کا حق چھیننا یا کسی کے جائز حق سے محروم کرنا۔

علم کی چوری: دوسروں کے علم یا تخلیقی مواد کو بغیر اجازت اپنے نام سے پیش کرنا، جیسے کہ سرقہ (plagiarism

اعتماد کی چوری: لوگوں کے اعتماد کا غلط استعمال کرنا، ان کی ذاتی معلومات کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔

 ان تمام اقسام کی چوری معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں اور اسلام میں سختی سے منع کی گئی ہیں۔

 

چوری جیسے گناہ کو معمولی سمجھنا

 

آج کل کے معاشرے میں چوری کو اکثر معمولی سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر جب یہ چھوٹے پیمانے پر ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے چھوٹی موٹی چیز چوری کی ہے تو یہ کوئی بڑا گناہ نہیں ہے، حالانکہ اسلام میں چوری کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا گیا۔

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا"کسی بھی نیکی کو معمولی نہ سمجھو، چاہے وہ صرف تمہارے بھائی کے ساتھ خوش اخلاقی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو۔"اس حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ کسی بھی برے عمل کو معمولی نہ سمجھا جائے، چاہے وہ چوری کی چھوٹی سی مثال ہو۔ معمولی چوری بھی ایک بڑی برائی کی بنیاد بن سکتی ہے۔

 

پاکستان کے موجودہ حالات میں چوری کی وارداتیں

 

پاکستان کے موجودہ معاشرتی حالات میں چوری کی وارداتیں بہت عام ہو چکی ہیں۔ غربت، بے روزگاری، اور معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے چوری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چور نہ صرف امیروں کی جائیداد پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں بلکہ غریبوں اور عام شہریوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔

 ملک میں چوری کے واقعات میں اضافہ قانون کی کمزوری، حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی، اور عدالتی نظام کی سست رفتاری کا نتیجہ ہے۔ یہ سب عوامل مل کر ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جہاں چوری کو جرم نہیں بلکہ بقا کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

 

چوری کی لعنت سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

 

چوری سے بچنے اور معاشرتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے چند اہم اقدامات اٹھانا ضروری ہیں:

 اسلامی تعلیمات کی پیروی: اسلام نے چوری کو سختی سے منع کیا ہے اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہئے تاکہ ہم چوری جیسے گناہ سے بچ سکیں۔

 معاشی بہتری: غربت اور بے روزگاری چوری کی بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت کو معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں اور وہ چوری جیسے گناہ میں ملوث نہ ہوں۔

 قانون کا نفاذ: قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا اور چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ضروری ہے۔ جب چوری کرنے والے کو سزا ملے گی، تو یہ دوسروں کے لئے عبرت کا باعث بنے گا۔

 اخلاقی تربیت: والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ بچوں کی ابتدائی عمر سے ہی ان کی اخلاقی تربیت کریں اور انہیں چوری کے نقصانات اور گناہ کے بارے میں آگاہ کریں۔

سماجی انصاف: چوری کے پیچھے معاشرتی ناہمواریوں کا بھی کردار ہے۔ اگر معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہو گا، تو چوری کے واقعات کم ہو جائیں گے۔

 

اسلام میں چوری کی سزا

 

چوری کے سنگین نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلام نے چوروں کے لئے سخت سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ معاشرتی نظام کو خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، قرآن میں چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

 یہ سخت سزا صرف ایک ظاہری سزا نہیں بلکہ اس کا مقصد معاشرتی عدل و انصاف کو بحال کرنا ہے۔ اسلام کا یہ نظام سزا اور جزا انسانوں کو گناہ سے روکنے اور ایک بہترین معاشرتی نظام قائم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔

 

چوری، ایک ایسا گناہ ہے جسے اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ چاہے وہ مالی چوری ہو یا حقوق کی چوری، ہر قسم کی چوری معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ آج کل کے معاشرے میں چوری کو معمولی سمجھا جانا ایک بڑی غلطی ہے، جسے سدھارنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعلیمات کی پیروی، معاشرتی اور معاشی اصلاحات، اور قانون کی سختی سے عملدرآمد کے ذریعے ہم چوری جیسے گناہ سے بچ سکتے ہیں۔

  

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو