google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 12- کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 6 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 12- کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                         21- کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں بارہواں   گناہ کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنا ہے ۔ اس سے پہلےتواتر سے کئی آرٹیکل جو میں تفصیل سے شئیر کر تا آرہا ہوں اگر آپ ان کو پڑھنا چاہیےتو دئیے گئے ناموں پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں   ان میں سے حقارت سے کسی پر ہنسنا، دھوکا دینا، چغلی کرنا، بدگمانی کرنا، طعنہ دینا ،کسی کے عیب تلاش کرنا ، تہمت لگانا،ا شامل  ہیں۔

 




اسلام نے ہمیشہ عدل و انصاف اور حقوق کی حفاظت کی تعلیم دی ہے۔ کسی کا حق چھیننا، خاص طور پر زمین جیسی قیمتی چیز پر ناجائز قبضہ کرنا، ایک سنگین گناہ ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ زمین پر قبضہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے، اور یہ گناہ نہ صرف دنیا میں ظلم کا باعث بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی شدید عذاب کا سبب بنے گا۔

زمین پر قبضہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ناجائز طریقے سے کسی دوسرے کی ملکیت، خواہ وہ زمین ہو یا جائیداد، پر زبردستی قابض ہو جائے۔ یہ عمل ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے اور معاشرتی فساد کی جڑ ہے۔ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والے لوگ عام طور پر طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر مظلوم لوگوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔

 



آپ ﷺ نے فرمایا " "جو شخص کسی کی زمین کا ایک بالشت بھی ظلم سے ہتھیائے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔"یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ کرنا ایک شدید گناہ ہے اور قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہو گا۔

 

اسلام میں کسی کا حق کھانے پر کیا وعید بتائی گئی ہے؟

 

اسلام میں کسی کا حق چھیننا ایک سنگین جرم ہے، چاہے وہ زمین ہو یا کوئی اور چیز۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ایسے لوگوں کو خبردار کیا ہے جو دوسروں کے حقوق چھینتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں "اور نہ ہی ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے کھاؤ، اور نہ ہی حاکموں کے سامنے ان کو لے جاؤ تاکہ کسی کے مال کو ناجائز طریقے سے ہتھیا سکو جبکہ تم جانتے ہو کہ یہ غلط ہے۔" یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کسی کا حق چھیننا اور ناحق قبضہ کرنا اسلام میں منع ہے۔ جو لوگ ظلم کرتے ہیں اور دوسروں کا حق ہتھیاتے ہیں، وہ اللہ کے قہر کا سامنا کریں گے۔

 

طاقت کے نشے میں کسی مظلوم پر ظلم کرنا کیسا ہے؟

 

طاقت اور اختیار اللہ کی ایک نعمت ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس طاقت کا غلط استعمال کرے اور مظلوموں پر ظلم کرے، تو یہ ایک عظیم گناہ ہے۔ طاقتور لوگ اکثر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں اور غریبوں کے حقوق غصب کر لیتے ہیں، جس سے ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا  "مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ یہ بادلوں کے اوپر اٹھا لی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم، میں تمہاری مدد ضرور کروں گا، چاہے کچھ دیر بعد ہو۔" یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مظلوموں پر ظلم کرنے والوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔

 

یتیموں، مسکینوں اور مظلوموں کی بددعاؤں سے بچو

 

یتیموں، مسکینوں اور مظلوموں کا حق مارنا ایک سنگین گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا یتیموں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی تلقین کی ہے۔ جو شخص یتیموں کے حقوق غصب کرتا ہے، وہ اللہ کے غضب کا سامنا کرے گا۔

 

اللہ رب العزت فرماتے ہیں "جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور انہیں جلد ہی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا۔" یتیموں اور مظلوموں کی دعائیں فوراً اللہ کے دربار میں پہنچتی ہیں، اور ایسے ظالم لوگ جلد ہی اللہ کے قہر کا سامنا کرتے ہیں۔

 

ہماری عدالتیں، حکمران کا اس معاملے میں خاموش رہنا اللہ کے عذابوں کو دعوت دینا ہے

 

ہمارے معاشرتی نظام میں عدالتوں اور حکمرانوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اگر حکمران اور عدالتیں ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے نہ ہوں اور ظالموں کے خلاف کارروائی نہ کریں، تو یہ معاشرتی بدامنی اور اللہ کے عذاب کا باعث بنے گا۔

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "عدل و انصاف کا قیام حکومت کی بقا کا ضامن ہوتا ہے اور ظلم و زیادتی حکومت کو تباہ کر دیتی ہے۔"جب حکمران اور عدالتیں انصاف کرنے میں ناکام ہو جائیں، تو معاشرے میں بدامنی اور ظلم بڑھتا ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ اللہ کی گرفت میں آتا ہے۔

 

ہمارے موجودہ معاشرے میں قبضہ مافیا کا بھیانک کردار

 

موجودہ دور میں "قبضہ مافیا" ایک ایسی برائی بن چکی ہے جو کمزوروں اور غریبوں کے حقوق پامال کرتی ہے۔ یہ لوگ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر دوسروں کی زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں۔ قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کرنا اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا معاشرتی فریضہ ہے، لیکن افسوس کہ اکثر حکومتی ادارے ان کے خلاف خاموش رہتے ہیں۔ قبضہ مافیا کا یہ بھیانک کردار ایک بڑے فساد کا سبب بن رہا ہے اور یہ معاشرتی بگاڑ کا باعث ہے۔

 

موجودہ دور میں لوگوں کی اتنی بھوک بڑھ گئی ہے کہ قبرستانوں کی زمینوں پر بھی قبضہ مافیا کا راج ہے

 

آج کل قبضہ مافیا کی بھوک اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ قبرستانوں کی زمینوں پر بھی قبضہ کر رہے ہیں۔ قبروں پر تعمیرات کر کے گھروں کے صحن بنائے جا رہے ہیں، اور قبرستان کم اور رہائشی کالونیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔یہ انسانی ضمیر کی پستی اور لالچ کی انتہا ہے کہ لوگ مرنے والوں کی جگہ بھی نہیں چھوڑتے اور قبروں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

 

اس گناہ سے لوگوں کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

 

آگاہی پھیلانا: لوگوں میں اس گناہ کی سنگینی کے بارے میں آگاہی پھیلانا ضروری ہے تاکہ وہ اس سے بچ سکیں۔ خطبات جمعہ، دینی پروگرام، اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس مسئلے پر بات کی جا سکتی ہے۔

عدالتوں کا کردار: عدالتوں کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنا چاہئے اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔

قانون کا نفاذ: حکومت کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جو قبضہ مافیا کے خلاف سختی سے عملدرآمد کر سکیں۔

یتیموں اور مظلوموں کی مدد: یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہمارا دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔

دعا: اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ظلم و زیادتی سے بچائے اور عدل و انصاف کے قیام میں مدد فرمائے۔

  

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ ہم سب کو صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچائے۔۔۔ آمین

 مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو