google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 10-دسواں منانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 10-دسواں منانا



"دسواں منانا" ایک رسم ہے جو مرنے والے شخص کے انتقال کے دس دن بعد انجام دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد مرنے والے کی روح کے لیے دعائیں کرنا اور قرآن خوانی کرنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے، اور عموماً کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ رسم خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، جہاں خاندان والے مرنے والے کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔

 دسویں منانے کا طریقہ مختلف علاقوں اور فرقوں میں کچھ فرق کے ساتھ تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دسویں منانے کا طریقہ کار درج ذیل ہوتا ہے:

اجتماع اور دعوت

   مرنے والے کے گھر یا کسی قریبی مقام پر لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ خاندان والے، رشتہ دار، دوست احباب اور اہل محلہ اس اجتماع میں شامل ہوتے ہیں۔

قرآن خوانی اور دعائیں

   مرنے والے کے لیے قرآن خوانی کی جاتی ہے، اور خاص طور پر سورۃ یٰسین، سورۃ فاتحہ، یا دیگر سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ دعا کے دوران مرنے والے کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام کی دعا کی جاتی ہے۔

علماء کی تقریر

   بعض اوقات علماء یا واعظ حضرات کو مدعو کیا جاتا ہے جو مرنے والے کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا کرتے ہیں اور حاضرین کو آخرت کی یاد دہانی کے موضوع پر نصیحت کرتے ہیں۔

کھانے کا اہتمام

   قرآن خوانی کے بعد کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر اس کھانے کو صدقہ یا خیرات کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مرنے والے کے لیے ثواب حاصل ہو۔

فاتحہ خوانی اور دعا

   آخر میں اجتماعی طور پر فاتحہ خوانی اور دعا کی جاتی ہے، جسے مرنے والے کے ایصالِ ثواب کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔

دسویں منانے کا تصور مختلف مذاہب اور معاشروں میں مختلف طریقوں سے پایا جاتا ہے:

ہندو مت

   ہندو مذہب میں مرنے والے کے لیے دس دن تک مختلف رسومات کی جاتی ہیں جنہیں "دشاہ" کہا جاتا ہے۔ ان رسومات کا مقصد مرنے والے کی روح کی تسکین اور مغفرت کی دعا کرنا ہوتا ہے۔

عیسائیت

   عیسائیت میں مرنے والوں کے لیے مخصوص دنوں میں دعائیں کی جاتی ہیں، اور مرنے والے کو یاد رکھا جاتا ہے۔ بعض عیسائی فرقے نو دن تک دعائیں پڑھتے ہیں جسے "نووینا" کہا جاتا ہے۔

زرتشت مذہب

   زرتشت مذہب میں بھی مرنے والے کے لیے مختلف دنوں پر رسومات کی جاتی ہیں، جن کا مقصد روح کی پاکیزگی اور مغفرت کے لیے دعا کرنا ہوتا ہے۔

 

دسویں منانے کی رسم کی ابتدا کے بارے میں کوئی مستند تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں، لیکن یہ رسم برصغیر پاک و ہند کے معاشرتی اور مذہبی اثرات کے تحت وجود میں آئی معلوم ہوتی ہے۔ ہندو مت اور دیگر قدیم رسومات سے متاثر ہو کر یہ عمل مسلمانوں میں داخل ہوا۔ اسلام میں ایسی رسومات کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک علاقائی اور ثقافتی رسم کے طور پر سامنے آئی۔

 

پاکستان میں دسویں منانے کی رسم بعض مقامات پر نفع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس موقع پر کھانے اور دیگر انتظامات کے لیے کیٹرنگ سروسز، ہوٹل اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے افراد مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رسومات مرنے والے کے اہل خانہ پر سماجی دباؤ کا باعث بن جاتی ہیں، اور انہیں فضول خرچی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

 

اسلام میں دسویں منانے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ قرآن اور سنت میں مرنے کے بعد کسی خاص دن پر اجتماع، قرآن خوانی، یا کھانے کا اہتمام کرنے کا کوئی حکم نہیں ملتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو"۔سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ہم نوحہ کرنے اور میت کے بعد جمع ہو کر کھانے کو برا سمجھتے تھے"۔ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسی رسومات کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔

 

بریلوی مسلک

   بریلوی مسلک میں مرنے والوں کے لیے ایصالِ ثواب کے طور پر دعاؤں اور اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں دسویں بھی شامل ہے۔ ان کے عقائد میں اولیاء کرام اور بزرگان دین کی روحانی تاثیرات پر زور دیا جاتا ہے، اور اس کی بنا پر مرنے والے کے لیے خصوصی رسومات انجام دی جاتی ہیں۔

 

اہل تشیع

   اہل تشیع میں مرنے والوں کے لیے مخصوص رسومات اور مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر عاشورہ اور محرم کے دنوں میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ اسی اثر کے تحت مرنے والوں کے لیے دسویں اور دیگر دنوں پر دعائیں کی جاتی ہیں۔

 

احمدی مسلک

   احمدیوں میں بھی مرنے والوں کے لیے دعاؤں اور اجتماعات کا رجحان موجود ہے، جہاں ایصالِ ثواب کے لیے مختلف رسومات انجام دی جاتی ہیں۔

 

ان مسالک میں دسویں منانے کا رجحان بڑھنے کی وجہ دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور ثقافتی اثرات ہیں۔ کچھ لوگ ان رسومات کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، جبکہ علماء کے مطابق یہ ایک علاقائی رسم ہے جو دین کا حصہ نہیں ہے۔

 

دسویں منانا ایک علاقائی اور ثقافتی رسم ہے جس کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ علماء کے مطابق ایسی رسومات کو ترک کرنا چاہیے اور مرنے والوں کے لیے قرآن و سنت کے مطابق دعا اور صدقہ جاریہ کو ترجیح دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:  "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کیا"لہذا، ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالیں اور غیر ضروری رسومات سے بچیں۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

 

  

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو