google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 9-ساتا منانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 9-ساتا منانا



"ساتا" مرنے والے شخص کے انتقال کے سات دن بعد منعقد ہونے والے اجتماع کو کہا جاتا ہے، جو مختلف علاقوں اور فرقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ ساتا منانے کا مقصد مرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور اس کی روح کے سکون کے لیے اجتماعی عمل کرنا ہوتا ہے۔ یہاں ایک عمومی طریقہ کار ہے جو اکثر برصغیر پاک و ہند کے مسلمان معاشروں میں دیکھا جاتا ہے:

دعوت اور اجتماع کا اہتمام

   سات دن پورے ہونے پر مرنے والے کے خاندان والے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور اہل محلہ کو مدعو کرتے ہیں۔ اس موقع پر ایک اجتماع منعقد ہوتا ہے، جو عموماً گھر میں یا کسی مسجد میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس اجتماع کے لیے خاص مقامات جیسے امام بارگاہ یا کمیونٹی ہالز کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

قرآن خوانی اور دعا

   اجتماع میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے، اور اکثر صورت میں سورۃ یٰسین، سورۃ فاتحہ، یا سورۃ اخلاص جیسے منتخب سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جگہوں پر "ختم" یا "قل" کے طور پرمخصوص دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعا کے دوران مرنے والے کے لیے مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام کی دعا کی جاتی ہے۔

علماء یا خطیب کی تقریر

   بعض مواقع پر علماء یا خطیب کو مدعو کیا جاتا ہے جو مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور شرکاء کو دینی تعلیمات اور آخرت کی یاد دہانی کے موضوع پر نصیحت کرتے ہیں۔

کھانے کا اہتمام

   قرآن خوانی اور دعا کے بعد اکثر اوقات شرکاء کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر کھانے کو صدقہ یا خیرات کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مرنے والے کے لیے ثواب حاصل ہو۔ کھانے میں عام طور پر بریانی، روٹی، گوشت یا دیگر مقامی کھانے شامل ہوتے ہیں۔

مرنے والے کا ذکر اور نیکیوں کی یاد

   کچھ جگہوں پر مرنے والے کی زندگی اور ان کے نیک اعمال کا ذکر کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے لیے مزید دعائیں کی جا سکیں اور ان کی یاد کو زندہ رکھا جا سکے۔

فاتحہ خوانی اور ختم

   اجتماع کے اختتام پر مرنے والے کے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی طور پر فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ اس میں دعائیں کی جاتی ہیں، اور اس عمل کو "ختم" کہا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن و سنت میں سات دن یا کسی مخصوص دن کے بعد ایسے اجتماعات اور رسومات کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ علماء کے مطابق یہ ایک علاقائی روایت ہے جسے بدعت کہا جاتا ہے کیونکہ دین میں اس کا کوئی اصولی ثبوت نہیں ملتا۔

ہندو مت: ہندو مذہب میں "شرادھ" کے نام سے مرنے والوں کے لیے رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ یہ رسومات مرنے والے کی روح کی تسکین کے لیے کی جاتی ہیں، اور اس میں کھانے کا اہتمام بھی شامل ہوتا ہے۔

   عیسائیت: بعض عیسائی فرقوں میں مرنے والوں کے لیے "نووینا" (نُو دن کی دعائیں) کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں مرنے والے کی مغفرت اور ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔

زرتشت مذہب: زرتشتیوں میں مرنے والے کے لیے مخصوص دنوں پر دعاؤں اور رسومات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ان کی روح کی تسکین ہو سکے۔

 

ساتا منانے کی ابتدا کے حوالے سے کوئی مستند تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ روایت بنیادی طور پر ثقافتی اور علاقائی روایات سے نکلی معلوم ہوتی ہے، جس کی جڑیں مختلف مذاہب اور معاشروں کی قدیم رسومات میں پائی جاتی ہیں۔ برصغیر میں یہ رسم زیادہ تر ہندو مت اور دیگر قدیم مذہبی رسومات سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے معاشرتی نظام میں داخل ہوئی۔

 

پاکستان میں ساتا منانے کی رسم بعض اوقات منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مختلف مقامات پر اس موقع پر بڑے پیمانے پر کھانے کا اہتمام ہوتا ہے، ہوٹل اور کیٹرنگ سروسز اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے اجتماعات میں شامل مختلف خدمات فراہم کرنے والے افراد جیسے قاری حضرات اور واعظین کے لیے بھی یہ ایک ذریعہ معاش بن چکا ہے۔

 

اسلام میں کسی خاص دن جیسے تین دن، سات دن، چالیس دن یا سال بعد اجتماع منعقد کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایسے اجتماعات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اسلام میں مرنے والے کے لیے بہترین عمل یہ ہے کہ ان کے حق میں دعا کی جائے، صدقہ جاریہ کیا جائے، اور ان کے اچھے اعمال کو جاری رکھا جائے۔

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو"

اس کے علاوہ، سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ہم نوحہ کرنے اور میت کے بعد جمع ہو کر کھانے کو برا سمجھتے تھے"

 

بریلوی مسلک: بریلوی مسلک میں ساتا منانے کا رجحان عام ہے، جس کی وجہ ان کے عقائد میں اولیاء کرام اور بزرگان دین کی روحانی تاثیرات پر زور دینا ہے۔ اس مسلک میں مرنے والوں کے لیے خصوصی دعاؤں اور اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ان کی روح کو سکون مل سکے۔

 

اہل تشیع: اہل تشیع میں مرنے والوں کے لیے دعاؤں اور مجالس کا اہتمام ایک اہم عمل سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر محرم کے موقع پر امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ اہل تشیع میں مرنے والوں کے لیے دعا اور اعمال کے ذریعے ان کی مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔

احمدی مسلک: احمدیوں میں بھی مرنے والوں کے لیے دعاؤں اور اجتماعات کا رجحان موجود ہے۔ یہ اجتماعات روحانی سکون کے حصول اور مرنے والے کی مغفرت کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔

 

ان مسالک میں ساتا منانے کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ ثقافتی روایات کا امتزاج اور روحانی تصورات کا اثر ہے۔ بعض اوقات، لوگ ان اجتماعات کو سماجی دباؤ یا خاندان کی روایت کے تحت بھی مناتے ہیں، چاہے وہ دینی طور پر واجب نہ ہوں۔

اسلام میں ساتا منانے کا کوئی مستند حوالہ قرآن یا حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اگرچہ یہ عمل بعض مسلمانوں کے معاشرتی اور مذہبی طرز زندگی کا حصہ بن چکا ہے، لیکن اس کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ اس قسم کی بدعات سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دین میں غیر ضروری اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کیا" ۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کریں اور دین میں نئی رسومات داخل کرنے سے گریز کریں۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

  

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو