"چالیسواں
منانا" ایک رسم ہے جو کسی شخص کے انتقال کے چالیس دن بعد منعقد کی جاتی ہے۔
اس موقع پر مرنے والے کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی، دعاؤں اور اجتماعی خیرات
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو مرنے والے کے لیے دعا اور اس کی مغفرت کی نیت سے
انجام دیا جاتا ہے، اور اس میں کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یہ رسم برصغیر
پاک و ہند میں زیادہ مشہور ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے بعض فرقوں میں اسے مذہبی یا
روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔
دعوت اور اجتماع
مرنے والے کے انتقال کے چالیس دن بعد، اہل
خانہ کی جانب سے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور اہل محلہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ
اجتماع اکثر مرنے والے کے گھر، مسجد یا کسی خاص مقام پر منعقد ہوتا ہے۔
قرآن خوانی اور دعائیں
قرآن خوانی میں عام طور پر سورۃ یٰسین، سورۃ
فاتحہ، اور دیگر سورتوں کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی جاتی ہے،
جس میں مرنے والے کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام کی دعا کی جاتی ہے۔
علماء کی تقریر
بعض مقامات پر علماء کو دعوت دی جاتی ہے، جو
مرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور حاضرین کو موت، آخرت اور نیک اعمال کی اہمیت
پر نصیحت کرتے ہیں۔
کھانے کا اہتمام
قرآن خوانی کے بعد شرکاء کے لیے کھانے کا
اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں کھانے کو صدقہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ مرنے
والے کو اس کا ثواب پہنچے۔ بعض مقامات پر کھانا غریبوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔
فاتحہ خوانی اور دعا
آخر میں فاتحہ خوانی اور دعا کی جاتی ہے، جسے
مرنے والے کے ایصالِ ثواب کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ لوگ اس دعا میں شرکت کرتے ہیں
اور مرنے والے کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔
چالیسواں
منانے کا تصور مختلف مذاہب میں موجود ہے، جہاں چالیس دنوں کو ایک خاص روحانی یا
مذہبی اہمیت دی جاتی ہے:
ہندو مت
ہندو مذہب میں مرنے والے کے لیے
"شرادھ" رسومات انجام دی جاتی ہیں، جو موت کے بعد مخصوص دنوں پر کی جاتی
ہیں، اور چالیس دن کے بعد بھی رسومات کا اہتمام ہوتا ہے۔
عیسائیت
عیسائیوں میں مرنے کے بعد بعض فرقوں میں دعاؤں
کا سلسلہ چالیس دن تک جاری رہتا ہے۔ یہ رسومات "نووینا" کے طور پر معروف
ہیں، جن میں مرنے والے کی مغفرت کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔
زرتشت مذہب
زرتشتی مذہب میں بھی مرنے کے بعد مختلف دنوں
پر رسومات انجام دی جاتی ہیں، اور چالیس دن کے بعد ایک خاص دعا اور اجتماع کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔
چالیسواں
منانے کی رسم کی اصل ابتدا کے حوالے سے کوئی مستند تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ
رسم بنیادی طور پر برصغیر کی ثقافتی روایات اور غیر اسلامی معاشروں کے اثرات کے
تحت مسلمانوں میں رائج ہوئی ہے۔ ہندو مت، بدھ مت اور دیگر قدیم روایات سے متاثر ہو
کر یہ رسم مسلمانوں میں بھی مقبول ہوئی، تاہم اسلام میں اس کا کوئی مذہبی یا دینی
ثبوت موجود نہیں ہے۔
پاکستان
میں چالیسواں منانے کی رسم بعض صورتوں میں منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ اس موقع
پر کھانے کے بڑے پیمانے پر اہتمام، کیٹرنگ سروسز، ہوٹلوں اور دیگر خدمات کے ذریعے
بہت سے افراد مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، علماء، واعظین، اور قاری حضرات
بھی ان رسومات میں شامل ہو کر خدمات فراہم کرتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے لیے مالی
ذریعہ بنتی ہیں۔
اسلام
میں چالیسواں منانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث میں کسی خاص دن جیسے چالیس
دن بعد اجتماع منعقد کرنے یا مرنے والے کے لیے دعا اور خیرات کا اہتمام کرنے کا
کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: "جب انسان فوت ہو جاتا
ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے
لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو"
۔
صحابہ
کرام اور تابعین کی زندگیوں میں بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں چالیس دن بعد
کوئی خاص اجتماع یا رسومات منعقد کی گئی ہوں۔ایک حدیث میں سیدنا جریر بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ہم نوحہ کرنے اور میت
کے بعد جمع ہو کر کھانے کو برا سمجھتے تھے" ۔یہ حدیث واضح کرتی ہے
کہ اسلام میں میت کے بعد اجتماع منعقد کر کے کھانے کا اہتمام کرنا ممنوع ہے، اور
اسے بدعت قرار دیا گیا ہے۔
بریلوی مسلک
بریلوی مسلک میں مرنے والے کے لیے ایصالِ ثواب
کے لیے مختلف رسومات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں چالیسواں منانا بھی شامل ہے۔
اس مسلک میں بزرگان دین اور اولیاء کرام کی روحانی اثرات پر زور دیا جاتا ہے، اور
مرنے والوں کے لیے دعائیں اور خیرات کی جاتی ہیں۔
اہل تشیع
اہل تشیع میں چالیسویں کا ایک خاص اہتمام امام
حسین اور کربلا کے شہداء کی یاد میں ہوتا ہے۔ محرم کے چالیس دن بعد "اربعین"
کی رسم منائی جاتی ہے، اور اسی اثر کے تحت مرنے والوں کے لیے بھی چالیسواں منانے
کا رجحان پیدا ہوا ہے۔
احمدی مسلک
احمدی مسلک میں بھی چالیسواں منانے کا رجحان
موجود ہے، جہاں مرنے والے کے لیے ایصالِ ثواب کے لیے مخصوص دنوں میں دعائیں اور
اجتماعات کیے جاتے ہیں۔ان مسالک میں چالیسواں منانے کا رجحان بڑھنے کی ایک وجہ
ثقافتی روایات اور روحانی عقائد کا امتزاج ہے، جو کہ دین کی اصل تعلیمات کے برخلاف
ہیں۔
اسلام
میں چالیسواں منانے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے، اور اسے ایک بدعت کہا جاتا ہے کیونکہ
یہ قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ اسلام میں مرنے والوں کے لیے دعا اور صدقہ جاریہ
کی تعلیم دی گئی ہے، اور ایسی رسومات کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ
تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "آج میں نے تمہارے لیے
تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لیے
دین کے طور پر پسند کیا" ۔لہذا، ہمیں دین کو اس کی اصل شکل میں
سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، اور غیر ضروری رسومات سے بچنا چاہیے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔