google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 12-گیارہویں منانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 12-گیارہویں منانا



"گیارہویں" منانا ایک خاص رسم ہے جو برصغیر پاک و ہند میں بڑے پیمانے پر مروج ہے۔ گیارہویں سے مراد معروف صوفی بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمہ اللہ) کے نام سے منسوب ایک دینی و روحانی تقریب ہے۔ اسے "گیارہویں شریف" یا "گیارہویں کا ختم" بھی کہا جاتا ہے۔ اس تقریب میں قرآن خوانی، نعت خوانی، اور شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات اور زندگی پر تقریریں ہوتی ہیں، اور ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد ان بزرگ کی روح کے ایصال ثواب اور ان کے روحانی مرتبے کی یاد دہانی ہوتا ہے۔گیارہویں منانے کا طریقہ کار مختلف علاقوں اور فرقوں میں تقریباً یکساں ہوتا ہے، جس میں درج ذیل اعمال شامل ہیں:

 قرآن خوانی اور دعائیں

   قرآن خوانی، نعت خوانی اور دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں شرکت کرنے والے لوگ شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرتے ہیں۔

فاتحہ خوانی

   مرنے والوں کے لیے فاتحہ خوانی اور دعا کی جاتی ہے، اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام پر صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے۔

کھانے کا اہتمام

   گیارہویں کے موقع پر کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جو حاضرین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کھانے کو صدقہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس کا ثواب شیخ عبدالقادر جیلانی کو پہنچایا جا سکے۔

گھروں میں خصوصی دعائیں

   گیارہویں کے موقع پر گھروں میں بھی خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں، اور لوگ اپنی حاجات پوری ہونے کی دعا کرتے ہیں۔

 

گیارہویں شریف کا عرس خاص طور پر شیخ عبدالقادر جیلانی کے مریدین اور پیروکاروں کے درمیان منایا جاتا ہے۔ یہ عرس دنیا بھر کے مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مختلف مقامات پر شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام پر گیارہویں شریف کا عرس منایا جاتا ہے۔

 

گیارہویں منانے کا سب سے زیادہ اہتمام بریلوی مسلک میں کیا جاتا ہے۔کیونکہ  بریلوی مسلک کے پیروکار  اللہ رب العزت کے در کو چھوڑ کر صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کے عرس اور ان کے نام پر منائی جانے والی تقریبات پر بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اور گیارہویں شریف کو خاص طور پر عبدالقادر جیلانی کی یاد میں مناتے ہیں۔لوگ اپنی منتیں اور مرادیں، نذرونیاز، چڑھاوے، قربانیاں  حتیٰ کہ ہر وہ کام جو اللہ کے نام سے شروع ہونے چاہیےیا یوں کہیں کہ جو صفات اللہ کی ہیں کسی اور کو دینا اللہ کی وحدانیت پر شک کرنا یا شریک کرنا ہے۔کبھی یہی مسلک میلاد کے عرس مناتا نظر آتا ہے تو کبھی شب برات کی تقریبات میں ملوث ہوتا ہے اسی لیے اس مسلک کے پیروکار زیادہ تر شرک کی عمیق گمراہیوں میں مبتلاہیں۔جو کہ معاشرتی اور دینی سطح پر برے اثرات ظاہر کرتا ہے۔

 

پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقوں میں گیارہویں کے موقع پر گوشت فروش، سبزی فروش اور دودھ فروش عام طور پر چھٹی کرتے ہیں یا اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد گیارہویں شریف کی عقیدت اور تقدس کی علامت کے طور پر کاروبار بند کرنا ہوتا ہے تاکہ اس دن کو مکمل طور پر روحانی انداز میں گزارا جا سکے۔ اس کے علاوہ، بعض لوگ اس دن کی چھٹی کو عبادت اور دعا کے لیے مختص کرتے ہیں اور اپنے کاروبار کو بند کر کے دعاؤں اور ذکر و اذکار میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

 

گیارہویں منانے کا تصور صرف مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، اور خاص طور پر صوفیائے کرام کے پیروکار اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ تاہم، گیارہویں منانے کا کوئی تصور دوسرے مذاہب جیسے ہندو مت، عیسائیت یا زرتشت مذہب میں موجود نہیں ہے۔

 

گیارہویں منانے کی رسم کی ابتدا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمہ اللہ) کے وصال کے بعد ہوئی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی، جنہیں "غوثِ اعظم" بھی کہا جاتا ہے، کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں نے ان کے ایصالِ ثواب کے لیے مختلف رسومات کا آغاز کیا، جس میں گیارہویں شریف بھی شامل ہے۔ یہ رسم صوفی روایات کے تحت برصغیر پاک و ہند میں زیادہ مقبول ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک مستند رسم کی شکل اختیار کر گئی۔

 

گیارہویں شریف اور دیگر مذہبی تقریبات بعض مقامات پر نفع بخش کاروبار کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اس موقع پر کھانے پینے کی اشیاء کی خرید و فروخت، کھانے کے بڑے پیمانے پر اہتمام، کیٹرنگ سروسز، اور دیگر خدمات مہیا کی جاتی ہیں، جو اس تقریب کو کاروباری سرگرمیوں سے منسلک کرتی ہیں۔ بعض اوقات گیارہویں کی رسومات کو بڑے پیمانے پر منانے کے لیے لوگ اپنی معاشی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، جس سے یہ رسم ایک مالی بوجھ بھی بن جاتی ہے۔

 

اسلام میں گیارہویں منانے کا کوئی ذکر قرآن و سنت میں نہیں ملتا۔ اسلام میں تمام عبادات اور رسومات کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدعت سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  "ہر نئی چیز دین میں بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے" ۔اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں گیارہویں جیسی نئی رسومات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگرچہ شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمہ اللہ) ایک بہت بڑے ولی اللہ تھے، لیکن ان کی یاد میں گیارہویں منانا اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف ہے۔

 

بریلوی مسلک

   بریلوی مسلک میں گیارہویں شریف کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ یہ مسلک صوفی ازم سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ عبدالقادر جیلانی کو روحانی پیشوا کے طور پر مانا جاتا ہے، اور ان کے نام پر گیارہویں منانے کا رجحان زیادہ تر اسی مسلک میں پایا جاتا ہے۔

 

اہل تشیع 

   اگرچہ اہل تشیع میں گیارہویں شریف کا رواج عام نہیں ہے، لیکن اہل تشیع میں اولیاء اور اماموں کے عرس اور ایصالِ ثواب کے لیے رسومات کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور اس وجہ سے بعض مقامات پر گیارہویں کا بھی اہتمام ہو سکتا ہے۔

احمدی مسلک

   احمدیوں میں بھی گیارہویں شریف کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن ان کا اس رسم کو منانے کا طریقہ کار اور عقائد بریلوی مسلک سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

ٌ

اسلام میں گیارہویں منانے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ گیارہویں ایک علاقائی اور ثقافتی رسم ہے جو بعد میں مسلمانوں میں رائج ہوئی ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، اور علماء کے مطابق ایسی رسومات کو بدعت کہا جاتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کیا" ۔لہذا، مسلمانوں کو دین کی اصل تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے غیر ضروری رسومات سے بچنا چاہیے، اور اپنی عبادات کو قرآن و سنت کے مطابق انجام دینا چاہیے۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

 

  

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو