"برسی" ایک ایسی رسم ہے جس میں کسی شخص کی وفات کے ایک
سال بعد اس کی یاد میں اجتماعی طور پر قرآن خوانی، دعائیں اور مخصوص رسومات ادا کی
جاتی ہیں۔ بعض اوقات اس تقریب کو وسیع پیمانے پر منایا جاتا ہے، جس میں اہل خانہ،
دوست احباب اور محلے والے شریک ہوتے ہیں۔ برسی کا مقصد مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب
اور مغفرت کی دعا کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ ایک ایسی رسم ہے جس کی کوئی شرعی بنیاد
قرآن و سنت میں نہیں ملتی۔
بریلوی مکتبِ فکر میں برسی منانے کا رواج عام ہے، اور اسے
اکثر مرحوم کے ایصالِ ثواب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ
مرنے کے بعد بھی مرحوم کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، اس لیے وہ برسی، تیجہ، چالیسواں
اور دیگر رسومات کے ذریعے مرحومین کے لیے دعا اور قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں۔
تاہم، اس عمل کو بعض علماء گمراہ کن قرار دیتے ہیں کیونکہ
اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ برسی اور اس جیسی دیگر رسومات کو دین میں ایک
بدعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں اس
کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ برسی منانا ضروری
ہے اور اس کے ذریعے مرحوم کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، جو گمراہی کی ایک شکل بن
گئی ہے۔
برسی جیسی رسومات کی ابتدا اسلامی تعلیمات کے ابتدائی دور میں
نہیں ہوئی۔ اس قسم کی بدعات کا رواج بعد کے ادوار میں مختلف ثقافتی اور سماجی
عوامل کے تحت شروع ہوا۔ بعض روایات کے مطابق، ہندو ثقافت اور رسوم و رواج سے متاثر
ہو کر مسلمانوں میں بھی برسی منانے کا رواج آیا۔ جنوبی ایشیا میں جہاں ہندو مذہبی
رسومات کا اثر زیادہ تھا، وہاں یہ روایات مسلم معاشرت میں داخل ہو گئیں اور وقت کے
ساتھ انہیں مذہبی رنگ دے دیا گیا۔
بریلوی حضرات کے ہاں برسی، تیجہ، چالیسواں، ساتا، قل، اور
جمعراتیں جیسی رسومات بہت عام ہیں۔ یہ رسومات اکثر کسی شخص کی وفات کے بعد مخصوص
دنوں پر منعقد کی جاتی ہیں، جیسے:
§
تیجہ: وفات کے تین دن بعد
§
قل: وفات کے دس دن بعد
§
چالیسواں: وفات کے چالیس دن بعد
§
برسی: وفات کے ایک سال بعد
یہ رسومات عام طور پر مرحوم کے لیے دعائیں اور قرآن خوانی
کے ساتھ منائی جاتی ہیں، اور ان میں اکثر مالی نذرانے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں، خاص طور پر پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش
میں، اہل تشیع اور بریلوی حضرات میں برسی منانے کا رجحان زیادہ ہے۔ دونوں مکاتب
فکر میں وفات کے بعد کی رسومات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اہل تشیع کے ہاں بھی مرنے
والوں کے لیے مجالس، قرآن خوانی اور دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کا مقصد
مرحومین کے لیے مغفرت اور ثواب کی دعا کرنا ہے۔
1. مسلک دیوبند:
دیوبندی علماء عمومی طور پر برسی اور دیگر بعد از وفات
رسومات کو بدعت تصور کرتے ہیں اور اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک
قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی عمل کرنا ناپسندیدہ ہے۔
2. مسلک بریلوی:
بریلوی حضرات میں برسی اور دیگر رسومات عام ہیں، اور انہیں
دینی طور پر نیک عمل تصور کیا جاتا ہے۔ وہ ان رسومات کو ایصالِ ثواب کے لیے اہم
سمجھتے ہیں۔
3. مسلک احمدی:
احمدیوں میں بھی وفات کے بعد ایصالِ ثواب کے لیے دعائیں اور
قرآن خوانی کی جاتی ہیں، تاہم ان میں برسی کا تصور اتنا عام نہیں جتنا کہ بریلوی
مکتب فکر میں ہے۔
4. مسلک اہل تشیع:
اہل تشیع میں بھی وفات کے بعد کی رسومات کو بہت اہمیت دی
جاتی ہے۔ مجالس اور قرآن خوانی کے ذریعے مرحومین کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں، اور
بعض اوقات برسی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
5. مسلک اہل حدیث:
اہل حدیث مکتب فکر میں برسی اور دیگر رسومات کو بدعت تصور کیا
جاتا ہے اور ان سے مکمل پرہیز کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک صرف قرآن و
سنت کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور وفات کے بعد کی رسومات کا کوئی شرعی
ثبوت نہیں ہے۔
اسلام میں بدعت کی سخت مذمت کی گئی ہے، اور ہر وہ عمل جو دین
میں نیا اضافہ ہو اور جس کا ثبوت قرآن و سنت میں نہ ہو، اسے مردود قرار دیا گیا
ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو شخص ہمارے دین
میں کوئی نیا عمل نکالے جو اس میں نہیں ہے، وہ مردود ہے”برسی جیسی رسومات کو بھی بدعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ دین میں شامل
نہیں تھیں اور بعد میں ایجاد کی گئیں۔
بعض حلقوں میں برسی جیسی رسومات کو نفع بخش کاروبار کے طور
پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مولوی حضرات یا علماء ایسی محافل کے انعقاد کے لیے پیسے لیتے
ہیں اور نذرانے کا رواج بھی عام ہو چکا ہے۔ اس کا مقصد دین کی خدمت کے بجائے مالی
فائدہ حاصل کرنا ہو جاتا ہے، جو کہ دین کی روح کے منافی ہے۔
اس بدعت سے بچنے کا واحد طریقہ قرآن و سنت پر مضبوطی سے عمل
پیرا ہونا ہے۔ ہر عمل کو دین کے مطابق پرکھنا ضروری ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے
مطابق، ہر عمل کی بنیاد نیت اور اس کا تعلق قرآن و سنت سے ہونا چاہیے۔رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا:"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے”مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بدعات سے بچیں اور اپنے اعمال کو قرآن و سنت کے مطابق
ڈھالیں۔ برسی جیسی رسومات کو ترک کریں اور صرف وہی اعمال اپنائیں جو قرآن و سنت میں
ثابت ہوں۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔