دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 17-تعویز پہننا

0


 

تعویذ ایک قسم کی تحریر، طغریٰ، یا علامتی شکل ہے جسے لوگ اپنی جسمانی یا روحانی حفاظت، بیماریوں سے شفا یا بری نظر سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں۔ تعویذ عموماً کسی کپڑے یا دھاتی ڈبے میں لپیٹ کر گردن، بازو یا کمر میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کے اندر قرآن کی آیات، مقدس دعائیں، یا جادوئی نقوش درج کیے جاتے ہیں۔ تعویذ پہننے کا مقصد ان غیر مرئی طاقتوں یا ناپسندیدہ اثرات سے بچنا ہوتا ہے جنہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

 

مسلک بریلوی میں تعویذ پہننا ایک عام رواج ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق، اگر تعویذ قرآنی آیات یا نیک دعاؤں پر مشتمل ہو تو اس کا پہننا جائز اور نیک کام ہے۔ تعویذ کو روحانی حفاظت کے لیے پہنا جاتا ہے اور بریلوی حضرات اس عمل کو کسی حد تک شریعت کے دائرے میں سمجھتے ہیں۔

 

اہل تشیع میں بھی تعویذ کا رواج موجود ہے، جہاں تعویذ اکثر اوقات حضرت علیؓ اور دیگر اہل بیت سے منسوب دعاؤں اور آیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اہل تشیع میں تعویذ کو روحانی طاقت کا ایک ذریعہ مانا جاتا ہے، جس کے ذریعے مومن کو اللہ کی مدد حاصل ہو سکتی ہے۔

 

ہندو مذہب میں تعویذ، جسے "تاویز" یا "کاوچ" کہا جاتا ہے، عام طور پر بد روحوں، بری نظر، اور بد قسمتی سے بچنے کے لیے پہنا جاتا ہے۔ تعویذ میں مختلف دیوی دیوتاؤں کی عبادات یا مقدس منتروں پر مشتمل تحریریں شامل ہوتی ہیں۔

 

سکھ ازم میں تعویذ پہننے کا تصور نہیں ہے، لیکن سکھ عوام میں یہ رواج پایا جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ اپنی صحت یا مشکلات کے لیے کسی روحانی حل کی تلاش میں ہوں۔ سکھ مت میں یہ عام نہیں لیکن عوامی سطح پر ثقافتی اثرات کے تحت یہ عمل موجود ہے۔

 

زرتشتی مذہب میں بھی تعویذ کا تصور پایا جاتا ہے، جو آتش پرستی کی مذہبی روایات سے جڑا ہوا ہے۔ زرتشتی تعویذات کو جادوئی اور مذہبی اثرات سے بچنے کے لیے پہنا جاتا ہے۔

 

دورِ جاہلیت میں لوگ تعویذ اور طلسمات کو اپنی حفاظت، جنگ میں کامیابی، اور بیماریوں سے شفا کے لیے پہنتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ تعویذات انہیں بری نظر، جادو، اور آفات سے بچا سکتے ہیں۔ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ نے اس قسم کے توہمات اور جادوئی اثرات کے خلاف سختی سے احکامات دیے۔

 

صحابہ کرام کے ادوار میں تعویذ کا رواج نہیں تھا۔ صحابہ کرامؓ براہ راست اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے تھے اور اسی کی مدد طلب کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تعویذ اور جادوئی عملیات کے سخت خلاف اقدامات کیے۔ ان کے دور میں جادو، طلسمات، اور غیر شرعی اعمال کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو شخص تعویذ لٹکائے، اس نے شرک کیا

 

مختلف مذاہب میں تعویذ پہننے کا رواج عام ہے۔ عیسائیت، یہودیت، ہندو مذہب، بدھ مت اور دیگر مذاہب میں تعویذات کا استعمال تحفظ، بیماری سے شفا، اور بدروحوں سے بچاؤ کے لیے ہوتا ہے۔ ہر مذہب میں اس کا تصور مختلف طریقے سے موجود ہے اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ تعویذات انہیں روحانی اور جسمانی مشکلات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

 

جنوبی ایشیائی ممالک، خصوصاً پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں تعویذ پہننے کا رواج بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں عوام کا ایک بڑا طبقہ جاہلانہ عقائد اور توہمات کا شکار ہوتا ہے، اور تعویذ کے ذریعے روحانی اور جسمانی مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں تعویذ کے عاملین کا ایک وسیع کاروبار ہے، جو عوام کے خوف اور مشکلات کو استعمال کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 

اسلام میں تعویذ پہننے کے بارے میں سختی سے منع کیا گیا ہے، خاص طور پر اگر اس میں شرکیہ الفاظ یا غیر اسلامی تحریریں شامل ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے تعویذ کو شرک کی علامت قرار دیا۔ حدیث میں آیا ہے:"دم، تعویذ اور جادو شرک ہیں

 

البتہ، بعض علماء نے یہ رائے دی ہے کہ اگر تعویذ میں صرف قرآن کی آیات یا جائز دعائیں ہوں اور اس پر یقین اللہ کی ذات پر ہو، تو اسے جائز کہا جا سکتا ہے، مگر یہ رائے محدود ہے اور اس پر عمل کرنے والے علماء کی تعداد کم ہے۔

 

تعویذ لکھنا اور فروخت کرنا ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے، خاص طور پر جنوبی ایشیا میں۔ عاملین اور پیروں کے پاس لوگ اپنی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں، اور وہ تعویذ لکھنے اور دینے کے بدلے میں پیسے لیتے ہیں۔ اس عمل میں عاملین لوگوں کے خوف اور جہالت کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اور اکثر یہ عمل مالی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔

 

1. اللہ پر مکمل بھروسہ: 

قرآن اور حدیث کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر مشکل اور پریشانی کے حل کے لیے ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا:"جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہے

 

2. قرآن کی تلاوت اور دعا: 

مشکلات اور بیماریوں کے حل کے لیے قرآن کی تلاوت اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق دعائیں کرنی چاہئیں۔ نبی کریم ﷺ نے مختلف بیماریوں اور مشکلات کے لیے دعائیں سکھائی ہیں۔

 

3. تعلیم اور شعور کی ضرورت: 

مسلمانوں کو تعویذ اور جادوئی عقائد سے بچنے کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کی ضرورت ہے۔ علماء اور معلمین کو چاہیے کہ وہ عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں آگاہ کریں تاکہ لوگ توہمات سے بچ سکیں۔

 

4. علماء کی رہنمائی: 

معتبر علماء کی رہنمائی حاصل کریں جو قرآن و سنت کی روشنی میں دینی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 

تعویذ پہننے کے گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین اسلام کی اصل تعلیمات کو سمجھیں اور اپنے مسائل کا حل صرف اللہ سے مانگیں، نہ کہ تعویذات یا جادوئی طریقوں سے۔

 

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !