google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 18-قبروں پر دئیے جلانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 14 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 18-قبروں پر دئیے جلانا



قبروں پر دئیے جلانا ایک قدیم رسم ہے، جس میں لوگ مردوں کی قبروں پر چراغ یا دئیے روشن کرتے ہیں۔ اس کا مقصد مردے کی روح کو تسلی دینا، اس کی روح کی حفاظت کرنا، یا اس کے لیے کسی قسم کا روحانی فائدہ پہنچانا سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں پایا جاتا ہے، مگر اسلام میں اس کا کوئی شرعی حکم موجود نہیں، بلکہ یہ غیر اسلامی اور بدعتی تصور ہے۔

  ہندوازم:

ہندوازم میں قبروں پر دئیے جلانے کا عمل عام ہے، خاص طور پر پوجا یا دیگر مذہبی رسومات کے دوران۔ ہندو عقائد میں روحوں کی تسکین اور ان کی خوشنودی کے لیے چراغ جلائے جاتے ہیں۔

 یہودی:

یہودی مذہب میں قبرستانوں پر یا مرنے والوں کی قبروں کے قریب دئیے جلانے کا رواج پایا جاتا ہے، خصوصاً یوم کپور جیسے مواقع پر، جسے یومِ کفارہ کہا جاتا ہے۔

 عیسائی:

عیسائی مذہب میں بھی دئیے یا موم بتیوں کا استعمال قبرستانوں میں ہوتا ہے، جہاں لوگ مرنے والوں کی یاد میں موم بتیاں جلاتے ہیں۔ اس کا مقصد دعائیں اور خدا سے رحم طلب کرنا ہوتا ہے۔

 زرتشت:

زرتشتی مذہب میں بھی آگ کی اہمیت ہے اور وہ مرنے والوں کی یاد میں آگ جلاتے ہیں، جسے پاکیزگی اور روشنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

 سکھ ازم:

سکھ ازم میں قبرستانوں یا سمادھیوں پر دئیے جلانے کا کوئی مذہبی حکم موجود نہیں، مگر عوامی طور پر یہ رسم دیکھنے کو ملتی ہے، خاص طور پر اس خطے میں رہنے والے سکھ حضرات اس قسم کی رسومات کو اپناتے ہیں۔

 بدھ مت:

بدھ مت میں چراغ یا دئیے جلانا ایک اہم مذہبی رسم ہے، خاص طور پر بودھ مندروں میں۔ مرنے والوں کی قبروں پر بھی دئیے جلانے کا رواج بعض بدھ معاشروں میں پایا جاتا ہے۔

 احمدی:

احمدیہ جماعت میں قبروں پر دئیے جلانے کی رسم کا کوئی مذہبی جواز نہیں، مگر عوامی سطح پر بعض احمدیوں میں یہ عمل دیکھا جاتا ہے، جو مقامی ثقافتی اثرات کی وجہ سے ہوتا ہے۔

 

قبروں پر دئیے جلانے سے قبر کے اندر موجود مردے کو کچھ پتہ نہیں چلتا، نہ ہی اس سے اسے کوئی فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، دنیا سے انتقال کر جانے والے افراد کا اس دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی آخرت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے دعا اور صدقہ تو فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن قبروں پر دئیے جلانے یا اس جیسی دیگر رسومات کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔

 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اور آپ اُن لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں"یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مردے زندوں کی باتیں سننے اور دنیاوی معاملات کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ وہ اپنے اعمال کے حساب کتاب میں مصروف ہیں اور دنیاوی رسومات ان پر اثرانداز نہیں ہوتی ہیں۔

 

نبی کریم ﷺ نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ مردوں کو صرف دعا اور صدقہ کی صورت میں فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:"جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے

 

دورِ جاہلیت میں قبروں پر دئیے جلانے کا رواج موجود تھا، جہاں لوگ اپنے مردوں کی قبروں پر دئیے جلا کر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس سے مردے کو روحانی تسکین یا راحت ملے گی۔ اسلام کے آنے کے بعد ایسی تمام غیر اسلامی رسومات کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا، اور نبی کریم ﷺ نے ان رسومات کو توہمات اور شرک کے ساتھ جوڑا۔

 

قبروں پر دئیے جلانے کا آغاز قدیم تہذیبوں سے ہوا ہے، جن میں مصر، بابل، یونان اور روم شامل ہیں۔ ان تہذیبوں میں مرنے کے بعد زندگی کا تصور بہت اہم تھا، اور لوگ سمجھتے تھے کہ مردے کی روح کو روشنی اور تسکین کی ضرورت ہے۔ اس رسم کا اثر بعد کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں پھیل گیا، اور اسلامی دنیا میں بھی بعض فرقوں نے اسے اپنالیا۔

 

 مسلک بریلوی:

مسلک بریلوی میں قبروں پر دئیے جلانے کا عمل زیادہ عام ہے۔ خاص طور پر اولیاء کرام کے مزاروں پر دئیے جلائے جاتے ہیں اور اسے روحانی برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

 اہل تشیع:

اہل تشیع میں بھی قبرستانوں یا اولیاء کرام کی قبروں پر دئیے جلانے کا رواج موجود ہے۔ یہ عمل خاص طور پر محرم کے دنوں میں اور عاشورہ کے موقع پر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

 دیوبندی:

دیوبندی مکتب فکر میں قبروں پر دئیے جلانے کو بدعت اور غیر اسلامی عمل سمجھا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک غیر شرعی رسم ہے اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

 اہل حدیث:

اہل حدیث علماء کے نزدیک قبروں پر دئیے جلانا سراسر بدعت ہے۔ ان کے مطابق، قبروں کے ساتھ کسی قسم کی عبادت یا رسومات کا تعلق نہیں ہونا چاہیے، اور یہ شرعی تعلیمات کے خلاف ہے۔

 

ائمہ کرام میں اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر دئیے جلانا شرک اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے قبروں پر کسی بھی قسم کی عبادت یا رسومات کو سختی سے منع کیا ہے۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"اللہ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں، قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی

 

اسلام میں قبروں پر دئیے جلانے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں صرف یہ حکم دیا ہے کہ قبروں پر جا کر دعا کریں اور وہاں سے نصیحت حاصل کریں، نہ کہ وہاں کوئی رسم یا عبادت کا عمل کیا جائے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:"بے شک وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ بھی تمہاری طرح بندے ہیںیہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ مردے یا قبریں کسی قسم کا فائدہ یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور قبروں پر دئیے جلانا ایک غیر اسلامی عمل ہے۔

 

مسلک بریلوی اور اہل تشیع میں اکثر بدعات کو فروغ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ان بدعات میں پکی قبریں، گدی نشینی، پیر پرستی، چالیسواں، قل، اور دیگر رسومات شامل ہیں۔ ان فرقوں میں اولیاء کرام اور شہداء کی قبروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے مزاروں پر مختلف رسومات انجام دی جاتی ہیں۔

 

 پکی قبریں:

پکی قبریں بنانا نبی کریم ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ نبی ﷺ نے قبروں کو سادہ رکھنے کا حکم دیا اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا۔

 گدی نشینی:

گدی نشینی اور مزار پرستی کا رواج بھی بریلوی اور اہل تشیع مکاتب فکر میں عام ہے، جو کہ اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف ہے۔

 چالیسواں، قل:

چالیسواں اور قل جیسی رسومات کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تمام رسومات بدعات میں شمار ہوتی ہیں۔

 

1. قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنائیں: 

مسلمانوں کو قرآن اور سنت کی پیروی کرنی چاہیے اور ہر قسم کی بدعت اور غیر اسلامی رسومات سے بچنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"ہر نیا کام (دین میں) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے

2. تعلیمات کو عام کریں: 

علماء اور معلمین کو چاہیے کہ وہ عوام میں شعور پیدا کریں اور انہیں اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ لوگ بدعات سے دور رہیں۔

3. روحانی حل اللہ سے مانگیں: 

قبروں پر جانے اور وہاں دئیے جلانے کے بجائے اللہ سے براہ راست دعا کریں اور قرآن کی تعلیمات کو سمجھ کر عمل کریں۔

4. غیر شرعی عاملین سے دور رہیں: 

وہ لوگ جو بدعتوں کو فروغ دیتے ہیں، ان سے دور رہنا ضروری ہے۔ ایسے مولوی اور عاملین جو بدعات کو فروغ دے کر عوام کا استحصال کرتے ہیں، ان کے خلاف آگاہی پھیلانی چاہیے۔قبروں پر دئیے جلانے جیسی رسومات کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے اور یہ صریح بدعت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین اسلام کی اصل روحانی تعلیمات کو سمجھیں اور ان بدعات سے بچیں۔

 

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو