عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 7- توہم پرستی
غیر
عقلی عقائد پر اندھا دھند یقین رکھنا، چاہے وہ کسی خوف کی وجہ ہو یا پھر کسی جہالت
کی وجہ یا ایمان کی کمزوری ہو توہم پرستی کہلاتا ہے۔ توہم پرستی درحقیقت اندھی
تقلید کی وجہ سے نسل در نسل پروان کرتی
چلی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر ان روایات کی وجہ سے پروان کرتی ہے جو اباؤ اجداد کرتے
چلے آئے اور آگے ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولادیں بھی انہی روایات کو
برقرار رکھیں تاکہ خاندان کا نام روشن
ہوسکے۔
توہم
پرستی محض لوگوں میں بے چینی اور تشویش کا باعث
بنتی ہے، مثلا ایسے لوگ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر وہم کرتے ہیں کہ شاید کالے رنگ کی بوتل پی ہے ہوسکتا ہے مجھے
بخار ہو جائے، نماز پڑھتے ہوئے بھی اکثر
بھول جاتے ہیں کہ میں نے سجدہ کیا تھا یا رکوع کیا تھا وغیرہ۔
توہم
پرست لوگ منفی سوچ زیادہ رکھتے ہیں مثلا
اگر وہ یہ سوچتا ہے کہ کالی بلی اس کے آگے
سے گزر کر گئی ہے جو کہ اس کے لئے نقصان
کا باعث ہو سکتا ہے تو وہ کبھی بھی آگے قدم نہیں اٹھائے گا کیونکہ توہم پرست کمزور عقائد کی سوچ کے مالک ہوتے
ہیں۔
عصر
حاضر کے دس بڑے گناہ جن میں غیر اللہ کی پکار، بت پرستی، مردہ پرستی، اکابر پرستی، فرقہ پرستی، تعویذات کے بعد توہم
پرستی پر بات کرنے جارہا ہوں۔ توہم پرستی بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور
شرک کی ایک خاص قسم ہے جو لوگوں کو آہستہ آہستہ گمراہی کی دلدلوں میں دھکیلتا چلا
جاتا ہے۔ توہم پرست انسان اپنے ہی وسوسوں کا شکار ہوتاہے۔
ایک روایت کے مطابق
"کچھ لوگوں نے آپ ﷺ سےکاہنوں کے بارے میں پوچھاتو آپ ﷺنے اُن سے کہا ’’وہ کچھ نہیں ہیں ‘‘۔صحابہ
نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ ، بعض اوقات وہ ایسی بات بھی تو
کہہ دیتے ہیں جو سچی ثابت ہوتی ہے۔آپ نے وضاحت فرمائی: یہ ایک سچاکلمہ ہوتا
ہے، جس کو جن اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں مرغ
کی طرح قر قر کر کے ڈال
دیتا ہے۔ اِس
کے بعد یہ کاہن لوگ اُس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔"
اسی طرح ایک اور روایت کے
مطابق آپ ﷺ نے فرمایا "جو شخص کسی نجومی کے پاس جائےکہ اُس سے کوئی سوال
پوچھے، اُس کی چالیس شب و روز کی نمازیں قبول
نہیں کی جاتیں"۔
توہم پرست لوگ اپنے آپ کو
کھوجتے رہتے ہیں ایسے لوگ مزاروں، پیروں ،
نجومیوں اور قبرستانوں میں چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ جو بھی اباؤ اجداد کی طرف سے
نظریات، روایات اور عقائد منتقل کئے جاتے ہیں ان پر آنکھیں بند کرکے پیروی کرتے
دکھائی دیتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے
حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔اُسی رات بارش ہوئی تھی۔ آپ ﷺ جب نماز سے
فارغ ہو گئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم جانتے ہو کہ تمھارے
پروردگار نے کیا کہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول بہتر
جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بندوں میں سے کچھ نے میرے اوپرایمان کے ساتھ صبح
کی ہے اور بعض نے کفر کی حالت میں۔ سوجس شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس
کی رحمت سے ہم پر بارش برسی ،وہ میرے اوپر ایمان لایا اور تاروں کا انکار کیا۔ اور
جس نے کہا کہ فلاں تارے کی وجہ سے ہمارےاو پر بارش برسی، اُس نے میرے ساتھ کفر کیا
اور وہ تاروں پر ایمان لایا۔
اسلام میں توہم پرستی کا
تصور موجود نہیں ہے۔ کیونکہ توہم پرستی انسان کو شرک اور بدعات جیسی گھناؤنی
سرگرمیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی لوگ توہم پرستی کے شکار
ہیں، مثلا ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ
نئے سال کی شروعات ہوتے ہی لوگ جنتریاں خریدتے ہیں اور پورے سال کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور اسی
جنتری کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے ہیں، بالکل اسی طرح اگر میگزین دیکھیں تو لوگ "آپ کا ہفتہ کیسے گزرے گا" جیسے موضوع
کو شوق اور دلچسپی سے ناصرف پڑھتے ہیں بلکہ تاروں ستاروں کی حرکات کے مطابق اپنی
روزمرہ سرگرمی پلان کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹی
وی پر ایک کاہن کو بلایا جاتا ہے جو اکثر یہ بتاتا ہے کہ یہ سال کیسے گزرے گا ،
حکومت رہے گی کہ نہیں، کیا تباہی آئے گی
کون کیا کرے گا وغیرہ وغیرہ
توہم پرست انسان جادو
ٹونہ، تعویذ گنڈے، تنتر منتر جھاڑ پھونک ،
چلہ کاٹنا پر اندھا اعتماد کرتے ہیں ۔ دورِ جاہلیت میں عرب کے لوگ چونکہ علم و تحقیق
سے عاری تھے اس لئے جہالت کی تاریکی کی
وجہ سے بت پرستی رائج ہوگئی ۔ بت پرستی ہی کی بدولت وہ لوگ توہم پرستی کا شکار
ہوتے چلے گئے۔ توہم پرستی کے اس گناہ میں عرب کے لوگ اللہ رب العزت کی ہستی کا اقرار کرنا تو درکار ، سزا و جزا کا تصور، نیکی اور
بدی کا تصور، دنیا و آخرت کا تصور، نبیوں
پر ایمان، فرشتوں پر ایمان ، اللہ کی کتب پر ایمان صرف اور صرف استہزاء کی باتیں بن کر رہ گئی تھیں۔
توہم
پرستی نے ان کی عقل پر ایسا پردہ ڈالا کے
ان کے عقائد و اعمال ہی بگڑ کر رہ گئے، شرک و بدعت ، ظلم و ستم اور کفر و ضلالت کے
کالے بادل اس وقت تک رہے جب تک اللہ رب العزت نے عرب کی سرزمین پر آپ ﷺ کو معبوث
نہ فرمادیا۔ آپ ﷺ کی بعثت پر ظلم کے کالے بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے کیونکہ آپ ﷺ
نے لوگوں توہم پرستی کی دلدلوں سے نکال کر انہیں حقیقت سے روشنا کروایا، حقیقی تعلیم نے ناصرف شرک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے توحید کا درس دیا اور بت پرستی کی جگہ
اللہ وحدہ لاشریک کی تعلیمات کو پروان چڑھایا۔
اچھائی اور برائی ، باطل نظریات ،عقائدو اعمال میں ان کے لئے درست
سمت متعین فرمائی جو لوگ کل تک دوزخ کے
کنارے کھڑے تھے ان کو جہنم کی آگ سے بچا کر جنت کی روشنیوں کی طرف لے گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔