چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی حقیقت کیا ہے؟
قارئین کرام ! یہ بات روز
روشن کی طرح واضح ہے کہ یہود ونصاری نے ہمیشہ حق بات کو چھپایا نہ صرف
چھپایا بلکہ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے ماننے سے بھی انکار کیا ۔اور اللہ
تعالیٰ نے جب ان ناسمجھ لوگوں میں اپنے رسول بھیجے تو ناصرف ان کا مذاق اڑایا ،
حق بات کہنے سے ڈرایا، تنگ
کیا طرح طرح کی سزائیں دیں، بلکہ بغیر حق کے ان کو قتل کیا۔ آسمانی کتب میں جو
احکامات تھے ان میں ردوبدل کیا اور یوں لعنت کے مستحق ٹھہرے۔ اپنے آپ کو
عظیم تر قوم سمجھنے والی اور باقی لوگوں کو کم تر اور گھٹیا سمجھنے والی قوم
بھلا آپ ﷺ کو تنگ کیے بغیر خاموش کیسے رہ سکتی تھی عجیب وغریب فرمائشیں
کرنا، حق سچ سامنے ہوتے ہوئے بھی جھوٹ بولنا، سازشیں کرنا مکے کے یہودیوں کا معمول
بن چکا تھا۔
جب بھی کافروں کی طرف
سے کوئی آزمائش آتی اللہ رب العزت اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کی خود حفاظت
فرماتے۔ چاند کے دوٹکڑے ہونے کا معجزہ بھی درحقیقت اپنے نبی کے سچے ہونے
اور اللہ کے دین کامل ہونے کا ثبوت ہی تھا اور قیامت صغریٰ کی نشانی
میں سے ایک ہے جو آپ ﷺ کے دور مبارکہ میں وقو ع ہوچکی تھی۔
یوں یہ ذکر قرآن وحدیث میں
موجودنہ ہوتاتو قیامت تک آنے والے لوگ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے ۔ اور یہود
ونصاری گمراہ کرتے چلے جاتے حتی کہ لوگ بالکل فراموش کردیتے جیسے آج ہماری نسل کے
ساتھ ہورہا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادرہے ۔ احادیث کے مطابق ہجرت
سے 5سال قبل اہل قریش میں سے لوگوں کا ایک
گروہ آپ ﷺ کے پاس آیا ۔
اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ
اللہ رب العزت کے سچے نبی ہیں تو کوئی معجزہ دکھائیں ۔آپ ﷺ نے چاند کو دو
ٹکڑوں میں کرکے دکھایا۔چنانچہ آپ ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے
ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ
کے اس طرف اوردوسراٹکڑا دوسری طرف ہو گیا۔پہلے تو لوگ ماننے سے انکار کرتے رہے کہ
یہ سراسر جادو ہے۔
پھر کچھ دانا لوگوں نے یہ
خیال ظاہر کیا کہ جادو کا اثر صرف موجود لوگوں پر ہوتاہے ۔اس کا اثر ساری دنیا پر
تو نہیں ہو سکتا ۔چناچہ انہوں نے طے کیاکہ اب جولوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو
کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑوں میں دیکھاتھا۔ جب وہ لوگ آئے
اور ان سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی اس معجزہ کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں رات ہم
نے چاند کو دوٹکڑوں میں دیکھاہے ۔
لہذاکفار کے مجمع نے یہ طے کیا
کہ اگر باہرسے آنے والے لوگ آ کر یہی کہیں تو آپﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں
۔چنانچہ جو بھی باہر سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے
دیکھاہے ۔اس گواہی کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا مگر اہل
کفار کی اکثریت پھر بھی انکار اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتی رہی۔
ارشاد ربانی ہے کہ
"قیامت قریب آگئی اور
چاند پھٹ گیا اور یہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے"۔
اس آیت مبارکہ کا واضح
پیغام ہے کہ قیامت قریب آ گئی ہےاور دنیا کی عمر کا بہت تھوڑا حصہ
باقی رہ گیا ہےکیونکہ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا قیامت کی نشانیوں میں
سے ایک تھا وہ آپ ﷺ کے زمانہ میں ہو چکا مگر یہ واضح ترین اور فیصلہ کن معجزہ
دیکھ کر بھی کفار مکہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ظالموں نے یہ کہا کہ محمدﷺ نے ہم
لوگوں پر جادو کر دیا اور اس قسم کی جادو کی چیزیں تو ہمیشہ ہوتی چلی آرہی ہیں۔
علماء کرام اس واقعہ کی تفسیر
کچھ یوں فرماتے ہیں کہ انشاق قمر کا یہ
واقعہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا تھا ۔ جیسا کہ صحیح سند سے ثابت
متواتر احادیٹ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ
واقعہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں پیش آیا تھا اور یہ آپ ﷺ کے حیرت انگیز معجزات میں سے
ایک ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ بیافرماتے ہیں " اہل مکہ نے نبی کریم ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ
انہیں کوئی نشانی دکھائیں تو آپ ﷺ نے انھیں چاند کے دو ٹکڑوں میں بٹ جانا
دکھلایا"
ایک اور روایت کے مطابق " ایک مرتبہ ہم منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک چاند پھٹا اور
وہ دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے جا گرا اور دوسرا آگے ، رسول
اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا " گواہ رہنا"
آج کے سائنسدان اور ماہر
ارضیات و فلکیات بھی اس بات کا اعتراف کرتے دکھائی دیتےہیں کہ ایک دن چاند کے
دوٹکڑے ہوئے تھے اورپھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے
ہیں کہ تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہا ں دیکھی گئی ہے کہ جیسے
چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا گیا
ہو۔
تم اپنے رب کی کون کون سی
نعمتوں کو جھٹلاؤ گے جب بات آپ ﷺ کی ذات ِ اقدس کی طرف آئی تو اللہ رب
العزت نے وہ معجزہ کر کے دکھلایا جوکہ
انسان کے لئےکرنا تو درکنار سوچنا بھی ناممکن
ہے ۔ چونکہ یہ چیلنج کیا گیا تھا اہل یہود کی طرف سے تو آپ ﷺ کو اللہ رب العزت نے
اس میں سرخرو فرمایا۔ اور کفار کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی۔
اللہ رب العزت سے استدعا
کہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔۔۔ آمین
مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائیٹ وزٹ کریں
Subhanallah...
جواب دیںحذف کریں