دجال کے ساتھی کون لوگ ہوں گے؟
محترم قارئین کرام
! فتنہ دجال کی ہولناکیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ
نے خود اس فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ اور جب آپ ﷺ دجال کا ذکر صحابہ کرام کے
سامنے فرماتے تو خوف کے آثار ان کے چہروں پر عیاں ہوتے، صحابہ کو جو
بات پریشانی میں مبتلا کرتی وہ تھی دجال کی جعلسازی ، دھوکہ دہی اور
فریب دینا وغیرہ ، فتنوں کے اس کالے دور میں جہاں جھوٹ اور
فریب کے بادل چھائے ہونگے حقائق چھپا کر دجل اور فریب کی دنیا بسائی
جائے گی۔ لوگوں کے ایمانوں کو پرکھنے کا وقت ہوگا، حق اور باطل الگ نظر آ رہے ہوں
گے۔ لوگوں کے ایمان پل میں ماشہ اور پل میں تولہ لڑکھڑاتے ہوئے ہونگے۔
ایسے میں دجال کے منتظر
لوگ بھی منظرعام پر ہونگے اس وقت پتہ چلےگا کہ رحمن ٰ کے بندے کون ہیں اور شیطان
کے بندے کون ہیں۔رحمن ٰ کے بندے تو پہاڑوں اور غاروں میں اپنے ایمان کی
حفاظت کر رہےہونگے۔کیونکہ اس دجل اور فریب کی دنیا میں ان
کا اس طرح چھپ جانا ہی بہتر ہوگا۔
آج کےاس آرٹیکل میں ہم یہ
دیکھیں گے کہ کون لوگ ہونگے جو دجال کی پیروی کریں گے۔ جیسے کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے
کہ" دجال اس شور دار زمین میں مرقناۃ کے مقام پر اترے گا۔ اس کی طرف
نکلنے والوں کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی حتیٰ کہ آدمی اپنے کسی قریبی
رشتہ دار، ماں، بیٹی، بہن ، یا پھوپھی کو گھر میں اس خوف سے باندھ کر رکھے
گا کہ کہیں وہ دجال کی طرف نہ چلی جائے"۔
اس حدیث میں اکثریت
عورتوں کی طرف ذکر کیا گیا ہے واللہ اعلم کہ وہ عورتیں یہودی ہوگی
جو دجال سے جا ملیں گی یا کافر ہونگی، زانی ہونگی، مشرک ہونگی، لبرل
ہونگی،عیسائی ، سکھ ، ہندو یا بالکل گمراہ ہونگی جو دین اسلام کی تعلیمات
فراموش کر چکی ہونگی غرض یہ کہ وہ جو بھی ہونگی ایک کثیر تعداد میں دجال کے حق میں
لبیک کہیں گی، اس حدیث کا دوسرا حصہ اس بات کی طرف بھی اشارہ دے رہا
ہے کہ لوگوں کے ایمان اتنے کمزور ہو چکے ہونگے کہ ان لوگوں کو اللہ کی ذات پر
بھروسہ ہی نہیں ہوگا یا فتنہ دجال کی ہولناکیوں کا اتنا اثر ہو گا کہ لوگ
اپنے قریبی رشتہ داروں کو خوف سے بند کر لیں گے کہ کہیں وہ دجال کے لشکر میں نہ مل
جائیں۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ اللہ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
" دجال مشرق کے ایک علاقے سے نکلے گا جسے "خراسان " کہا جاتا ہے۔
اس کی پیروکا ر ایسی قومیں ہوں گی جن کے چہرے منڈھی ہوئی ڈھالوں کی طرح ہوںگے۔
اس حدیث کے مطابق
ایران کے جن شہروں کا ذکر کیا گیا ہے یا آگے بتایا گیا ہے وہ بیشتر علاقے یہودیوں
کے ہیں ۔ واللہ اعلم کہ ان علاقوں سے دوسرے مذاہب عالم کے ماننے
والے بھی دجال کےلشکر میں جا ملیں گے، کیونکہ ان علاقوں میں زرتشت ، ، پارسی، بدھ
مت بھی موجود ہیں
اللہ کے پیارے حبیب حضرت
محمد ﷺ نے فرمایا " مکہ اور مدینہ کے سوا کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جس
میں دجال نہ جائے مکہ و مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے گھیر ا ڈالے اس کی حفاظت کر
رہے ہوں گے۔ (جب وہ مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا تو) ایک شور دار زمین پر جا
ڈیرا لگائے گا۔ سرزمین مدینہ اپنے باسیوں کو تین جھٹکے دے گی اور ہر کافر و
منافق مدینہ سے نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا"۔
اس حدیث کے مطابق اہل عرب
کے لئے ہلاکت تو پہلے سے ہی موجود ہے ، اہل عرب کی عیاشی اور بے پناہ دولت
کی ریل پیل سے کون واقف نہیں ، سر زمین عرب میں ہلاکت کے وہ سارے سامان تیار
کئے جارہے ہیں جن کی پیشن گوئیاں مختلف احادیث کی صورت میں پہلے آچکی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا"
اصفہان (ایران کے وسط میں ایک شہرواقع ہے جس میں زیادہ تر یہودی آباد ہیں)
کے ستر ہزار (چھوٹی چادر کی مانند) جُبہ پوش یہودی
دجال کے پیروکار بن جائیں گے۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے
کچھ یو ں ارشاد فرمایا " دجال خوز ( ایران کے مغربی جانب ایک شہر
واقع ہے جسے آج کل خوزستان کہا جاتا ہے ) اور کرمان (ایران کا ایک صوبہ جو
جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے) میں اترے گا۔ اس کے ساتھ ستر ہزار لوگ ہوں گے جن کے
چہرے منڈھی ( یعنی ان کے سر چھوٹے ، چہرے بیضوی یا گول ہوں گے اور وہ
رخساروں کی ہڈیوں ، آنکھوں اور ناک کے نقوش کے ابھرے ہونے کے سبب چپٹے
معلوم ہوں گے جس سے آنکھ کا محور نمایاں نظر آئے گا ) ہوئی ڈھالوں کی مانند ہوں
گے"۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ
دجال ان کا مسیح منتظر ہے اورکیونکہ انکی کتب کے مطابق اللہ
تعالی نے ان سے ایک بادشاہ کے ظہور کا وعدہ کیا ہے جو حضرت داؤد کی
اولاد سے ہوگا۔ وہ دنیا میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی مملکت قائم کرے
گا۔ اس بادشاہ کا نام ان کی مقدس کتب میں "میسیاہ" ہے۔
یہودیوں کی مذہبی رسومات میں کچھ خاص دعائیں اورخاص نمازیں بھی ہیں جن میں وہ مسیح
دجال سےظاہر ہونے کی التجائیں کرتے ہیں۔ انھوں نے " عیدفصح"(یہودیوں
کے نزدیک یہ دن یوم نجات کے طورپر بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے ان کے مطابق
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس دن فرعون مصر سے نجات دلائی تھی۔ یہ دن یہودی
خواہ دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہولازمی مناتے ہیں، اس دن کو
"عیدفطیر" یعنی بے خمیری روٹی کی عید بھی کہاجاتا ہے اس روٹی کے ساتھ
کڑوی سبزیاں بھی کھائی جاتی ہیں جو کہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ فرعون مصر کی غلامی
کی ایک سخت تکلیف دہ یاد گا ر ہے۔اس دن رات گئے تک یہ اپنے گھروں کی چوکھٹوں پر
بھیڑ یا بکری ذبح کر تے ہیں تاکہ نئی آنے والی ہر آفت اور مصیبت سے بچا جاسکے، اس
ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت رات کو ہی ختم کر لیا جاتا ہے اور کوئی بھی ہڈی نہیں
توڑی جاتی ، کیونکہ ان لوگوں کے پاس کوئی مخصوص ٹھکانہ نہ ہے اس لئے یہ تہوار
زیادہ تر اجتماعی طور پر منایاجاتا ہے۔ اس میں بچوں کی شراکت کو بھی اہم
سمجھا جاتا ہے تورات کے اہم حصوں کی تلاوت کو پڑھ کر بچوں کو سنایا جاتا ہے
تاکہ روایات آنے والی نسلوں تک منتقل ہو سکیں)۔
کی رات کو خاص
دعاؤں کے لئے مختص کیا ہوا ہے۔ ان کی مذہبی کتاب"تلمود" (یوں تو اللہ رب
العزت نے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لئے حضرت موسیٰ پر تورات
نازل فرمائی لیکن اہل یہود نے اس میں ردوبدل کرکے تا قیامت لعنت کے مستحق ٹھہرے ۔
اہل یہود ایک مغضوب قوم ہے۔ یوں تو ہر یہودی کو تورات کی تلاوت کرنی چاہیے
لیکن تورات کی بجائے یہ لوگ تلمود پڑھتے اور عملا استعمال کرتے نظر آتے
ہیں۔اسکی 36 جلدیں ہیں ، اس میں سوسائٹی پر کنٹرول، مذہبی
رسومات ، خاندانوں کے مابین تعلقات، معیشت،تعلیم و تربیت، زراعت کر نے
کے طور طریقہ اورد یگر تمام معاملات کے متعلق معلومات موجود ہیں۔)
میں ہے " جب مسیح
(دجال ) آئے گا تو زمین سے تازہ روٹیاں، اون کے کپڑے اور گندم نکلے گی، اس کے دانے
اس قدر موٹے ہوں گے جس طرح بیلوں کے بڑے بڑے گردے ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں
حکومت وسلطنت یہودیوں کے قبضے میں ہوگی۔ دنیا کی تما م اقوام اس مسیح کی خدمت اور
فرماں برداری میں گزاریں گے۔اس وقت ہر یہودی کے قبضے میں کم سے کم دو
ہزار آٹھ سوغلام ہوں گے جو اس کی خدمت کے لئے ہروقت حکم بجا لانے کو تیار
رہیں گے۔ اور تین سو دس کا ئناتیں اس کے زیر تصرف ہوں گی۔ لیکن مسیح اسی وقت آئے
گا۔ جب شریروں کی حکومت ختم ہوجائے گی اور اسرائیل کی آمد سے یہودی امت کے منتظر
کی امید بھی پوری ہوگی اور جب وہ آجائیں گے تو یہودی امت باقی اقوام عالم پر
حکومت اور اقتدار حاصل کر لے گی۔
مسیح دجال کے
انتظار میں اہل یہود پوری طرح سےمسلمانوں اور عیسائیوں کو اس دنیا ہستی سے مٹانے
کے در پہ ہیں کبھی سود کے نظام میں پھنسا کر، بم دھماکوں کی صورت میں ، دہشت گردی
کی صورت میں،کبھی لڑائیوں اور فسادات کی شکل میں، کبھی ٹیکنالوجی کے الجھاؤ میں،
کبھی کرونا وائرسسزکی صورت میں لوگوں کا قتل عام ، اس مشن میں اہل یہود تو پوری
طرح سےتیار ہیں لیکن اہل مسلم خواب غفلت میں ہیں۔ وقت کے تیز رفتار سوئیاں ، سورج
کے طلوع اور غروب ہونےکی حرکات، رات اور دن کے تیزی سے تبدیل ہونے اور دیگر
سینکڑوں علامات جن کو ہم دیکھ تو رہے ہیں لیکن نیند میں غافل ہیں ۔سب اپنے مقررہ
وقت پر ظاہر ہورہی ہیں ۔۔۔۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرمائے۔۔۔آمین
Awesome
جواب دیںحذف کریںAllah hum sb ko bachaye
جواب دیںحذف کریںTrue information
جواب دیںحذف کریںLovely info
جواب دیںحذف کریںachi baat hai
جواب دیںحذف کریںO My God
جواب دیںحذف کریں