google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 یاجوج و ماجوج کے فتنہ سے لوگ کیسے نجات پائیں گے؟ حصہ دوم - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 20 اکتوبر، 2021

یاجوج و ماجوج کے فتنہ سے لوگ کیسے نجات پائیں گے؟ حصہ دوم

یاجوج و ماجوج  کے فتنہ سے لوگ کیسے نجات پائیں گے؟ حصہ دوم

 

محترم قارئین کرام ! اپنے سابقہ آرٹیکل میں نے تفصیلا ذکر کیا تھا کہ یاجوج و ماجوج کونہیں اور کیسے ختم ہونگے، کب آئیں گے اور کون ختم کرے گا۔ آج اس کا بقیہ حصہ آپ کے ساتھ شئیر کرنے جارہا ہوں ذوالقرنین  بادشاہ کون  تھے ؟ انہوں نے دیوار کیوں بنائی تھی اور اس میں کیا حکمت تھی ان کا ذکر سورۃ کہف میں اللہ رب العزت نے بیان فرمائی ۔

ارشاد ربانی ہے " پھر وہ پیچھے لگا ایک اور راہ کے۔ حتی کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو اس نے ان دونوں کے اس طرف ایک قوم پائی جو قریب نہ تھا کہ کوئی  بات سمجھیں ۔ وہ کہنے لگے: اے ذوالقرنین ! بے شک یاجوج و ماجوج اس سرزمین میں فساد کرنے والے ہیں تو کیا ہم تیرے لئے کچھ مال (جمع) کر دیں اس (شرط)پر کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دے۔ اس نے کہا: میرے رب نے مجھے اس میں جو قدرت دی ہے، بہت بہتر ہے چنانچہ تم میری (افرادی) قوت سے مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط بند بنادوں گا۔ تم مجھے لوہے کے تختے لا دو حتی کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو برابر کر دیا تو کہا: (اب اس میں) دھونکو  یہاں تک کہ جب اس نے اسے آگ بنادیا تو کہامیرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ اس پر ڈال دوں، پھر وہ (یاجوج وماجوج) استطاعت نہ رکھتے تھے کہ اس پر چڑھ جائیں اور نہ استظاعت رکھتے تھے کہ اس میں نقب لگائیں۔



ذوالقرنین ایک نیک مومن بادشاہ تھا، نبی نہیں تھا اسے ذوالقرنین اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مشرق و مغرب کا سفر کرکے ایسی جگہوں پر پہنچا جہاں سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ ذوالقرنین"سکندرمقدونی " نہیں بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور نیک شخصیت ہے کیونکہ سکندر کافر تھا اور اس کا زمانہ تو ذوالقرنین سے لگ بھگ دوہزار سال بعد کا ہے۔ واللہ اعلم۔

سورۃ کہف کے مطابق ذوالقرنین نے پوری زمین کا سفر کیا۔   جیسے فرمایا  گیا " یعنی وہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک اور راستے پر چلا جو اسے بلند پہاڑوں والے شمالی علاقے میں لے گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچا جو ترکوں کی سرزمین میں  آرمینیا اور آذربائیجان کی سرحد کے قریب واقع تھا۔دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ تھی ، جہاں سے یاجوج وماجوج نکل کر آتے تھے وہ ترکوں کے علاقےمیں فساد برپا کرتے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دیتے تھے۔

جب ان ترکوں نے ذوالقرنین کے پاس قوت دیکھی تو انھوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ بادشاہ صاحب اختیار اور باصلاحیت ہے۔ انھوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور یاجوج وماجوج کے درمیان اس راستے کو بند کرنے کے لئے ایک دیوار کھڑی کر دے تاکہ وہ ان پر حملہ  نہ کر سکیں اس کام کے عوض ترکوں نے بادشاہ کو مال کی پیش کش بھی کی۔ لیکن اس نیک بادشاہ نے بغیر کسی معاوضے کے محض بھلائی کے طور پر اور اللہ  سے اجروثواب لینے کے لئے دیوار بنانے کا فیصلہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے کا آسان ترین حل یہ ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی گز رگاہ کو ایک مضبوط دیوار سے بند کر دیا جائے ، چنانچہ اس نے ترکوں سے کہا کہ وہ افرادی قوت سے اس کی مدد کریں۔

بادشاہ نےلوہے کے بڑےبڑے ٹکڑے دونوں پہاڑوں کے درمیان ترتیب سے کھڑے کر دئیے اور پھر ان سے کہا: دھونکنیوں سے ان پر آگ جلاؤ، جب لوہے کی وہ چادریں شدت حرارت سے آگ کی طرح سرخ ہو گئیں۔ تو اس نے کہا کہ اب مجھے پگھلا ہوا تانبا فراہم کرو تاکہ میں اسے ان چاروں پر ڈال دوں۔ اس سے لوہے کے ٹکڑےآپس میں مضبوطی سے ایک دوسرے سے جڑ گئے اور ایک سخت پہاڑ کی طرح  ناقابل تسخیر بن گئے۔اس دیوار کی بلندی کے باعث یاجوج وماجوج کے لئے اس پرچڑھنا یا اس کے اوپر سے جھانکنا ناممکن ہوگیا۔ دیوار کی مضبوطی اور موٹائی کے سبب اسے نیچے سے کھودنا یا اس میں سوراخ کرنا بھی ان کے لئے ممکن نہ رہا۔ اس مضبوط و مستحکم دیوار کے ذریعے سے ذوالقرنین نے یاجوج وماجوج کے راستے کو بند کر دیا۔

ان تمام اشاروں سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انھیں رات  دن کی مسلسل کھدائی سے منع کر رکھا ہے  اگر وہ ایسا کرتے تو ممکن تھا کہ اس میں سوراخ کر دیتے اور یقینا قیامت سے پہلے قیامت ہو جاتی۔

دوسری بات  یہ کہ ہو سکتا ہے اللہ رب العزت نے ان سے یہ توفیق ہی چھین رکھی ہو کہ وہ سیڑھی یا کسی اور آلے کے ذریعے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کریں۔ اللہ پاک نے ان کے دماغ میں یہ بات آنے ہی نہیں دی اور ہو سکتا ہے کہ انھیں یہ طریقہ ہی نہ سکھلایا ہو۔

تیسری بات یہ کہ اللہ پاک انھیں مقررہ وقت تک اسی حالت میں رکھے گا اور ان کو"ان شاءاللہ" کہنے کی توفیق عطا ہی نہیں فرمائےگا۔

حدیث  کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کاریگر اور حکمران و سلاطین بھی موجود ہیں  ان میں ایک نظام ہے جس کے تحت وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں اگر لفظ "ان شاءاللہ " وہ کہیں گے  تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو نا صرف اللہ رب العزت کی ذات اقدس کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور بلکہ اس کی قدرت ومشیت کا اعتراف  بھی کرتے ہیں ۔

زمین کے تمام حصوں کی معرفت اور ان میں موجود ساری مخلوقات کا احاطہ کرنا تو محض اللہ رب العزت ہی کے اختیار میں ہے جس نے اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، اگر ہم یاجوج وماجوج کی دیوار، یا دجال کی جگہ یا اور دیگر مخلوقات کو معلوم نہیں کر سکتے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ موجو د ہی نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک نے خود ہی لوگوں سے یاجوج وماجوج اور ان کی دیوار کو انسانی آنکھ سے اوجھل کر رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ پاک نے ان کے اور لوگوں کے درمیان بعض ایسی اشیاء حائل کر دی ہوں جو انھیں دیکھنے میں مانع ہوں جیسا کہ نبی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ جب اللہ نے انھیں میدان"تیہ" میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا تو وہ زمین کے چند کلومیٹر کے علاقے میں ہی چالیس برس تک بھٹکتے رہے اور لوگوں کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلا یہاں تک کہ وہ مدت ختم ہوگئی ۔ اللہ پاک ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ارشاد ربانی ہے "اور اس (قرآن) کو آپ کی قوم نے جھٹلایا  ، حالانکہ وہ حق ہے، کہہ دیجئیے میں تم پر نگران نہیں ہوں۔ ہر ایک خبر کا وقت مقرر ہے اور جلد ہی تم جان لوگے"

ایک حدیث کے مطابق  " ایک شخص  نےنبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے یاجوج و ماجو کی دیوار دیکھی ہے۔آپ ﷺ نے پوچھا: وہ کیسی تھی؟" اس نے عرض کی : دھاری دار چادر کی طرح ، ایک دھاری سرخ اور ایک دھاری سیاہ ۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا" واقعی تم نے اسے دیکھا ہے"۔

بعض عقائد کے مطابق دیوار چین کو ہی وہ دیوار سمجھا جاتا ہے  جس سے یاجوج وماجوج کا خروج ہو گا جبکہ بالکل ایسا نہیں ہےوہ دیوار کسی بھی لحاظ سے دئیے گئے اشاروں پر پورا نہیں اترتی۔

دوستو! یہ وہ حقیقی تعلیمات ہیں جن سے آج ہماری نوجوان نسل نابلد ہے اسے کچھ بھی نہیں پتہ وہ انکو  مافوق الفطرت کہانیاں سمجھ رہے ہیں اول تو ان کو حقیقت کا پتہ ہی نہیں ہوتا اگر پتہ ہو بھی تو وہ اسے جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یاد رکھیں! دجال کا خروج بھی اسی وقت ہو گا جب لوگ بالکل فراموش کر چکے ہونگے۔ اس کا ذکر بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا جائےگا۔ آج ہماری کتب میں ان تعلیمات کا وجود ہی  نہیں ملتا ۔ آپ سب سے گزارش ہےکہ  میں نے جو بھی کوشش کی ہے آپ تک اس پیغام کو پہنچانے کی آپ دوسروں تک  پہنچائیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔۔۔ آمین

 

 

7 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو