google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 عشق یا دماغی خلل - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

اتوار، 29 اگست، 2021

عشق یا دماغی خلل

عشق یا دماغی خلل

دوستو! جب ہم پیار، محبت اورعشق کی بات کرتے ہیں تو دھیان فورا دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ ہیر رانجھا، شیریں فراد، ممتاز محل اور انار کلی کے قصے ہمارے ذہن میں گھومنے لگتے ہیں، ہندی اور اردو فلموں کی کہانیاں یاد آجاتی ہیں، ٹی وی ڈراموں کے کردار نظرکے سامنے آجاتے ہیں اور اردو شاعری سے لیکر افسانوں اور ناولوں کے رومانوی مناظر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے کتاب کا کوئی صفحہ کھلتا ہوا یا اپنے اطراف کا کوئی واقعہ تازہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فطری طور ہر انسان صنف مخالف کی کشش محسوس کرتا ہے اور اگر یہ بھی کہیں توبے جا نہ ہوگا کہ کہ تقریبا ہر انسان کی زندگی میں خاص طور پر عہد شباب میں کوئی نہ کوئی ایسا چھوٹا یا بڑاقلبی حادثہ ضرور رونما ہوتا ہے جب وہ جنس مخالف کی کشش سے خودکو کھنچتا ہوامحسوس کرتا ہےلیکن لوگ خامخواہ اسی کفیت کو پیار، محبت اور عشق کا نام دیتے ہیں ۔کم از کم مجھے تو ایسی کسی کیفیت تو پیار، محبت اور عشق کا نام دینا علمی کج فہمی، جزبات اور تعلق کی فلاسفی سے عدم واقفیت اورٹھاٹھے مارتے سمندر کو مٹھی میں قید کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

عشق یا دماغی خلل




 لوگوں نے پیار ، محبت اور عشق کو بھی بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے کہ ادھر کوئی نوجوان جوڑا ایک دوسرے سے قریب ہوااور ادھرانہیں عاشق و معشوق کا نام دے دیا گیا ۔گویا عاشقی و معشوقی بھی گڑیا گڈے کا کھیل ہو کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ، کسی مخالف جنس سے کچھ قربت ہوئی اوریہ کھیل شروع ہوگیا، جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور صاحب سراپہ عشق وو فا بن کر بزم عشاق میں آبیٹھے۔ قف ہے کہ نفس کے کھیل کو، کریکٹرکی کمزوری کو ،رنگارنگی اورلعولعاب کی کال کوٹھری کو پیار، عشق اور محبت پر قیاس کرلیا۔ اللہ اللہ ایسی گستاخی پیار ، محبت اور عشق کی اس بازار جسم و ریا میں ہوئی کہ سچے پکے عاشق بھی منہ چھپائے گھرآ بیٹھ گئے۔اس فضول اور لغو سوچ کی نشرو اشاعت میں ہمارے شعراء اور ارباب ادب و سخن کا عمل دخل بھی کچھ کم نہیں ہے۔چاہے آتش کی بیاض ہو میر تقی میر کا دیوان، منیر نیازی کی کتھا ہو یا پروین شاکر کی قلیات ہر جگہ پیار عشق اور محبت کاایسا محدود اور پھیکا تصور تراشہ گیا کہ کچھ سوچنے سمجھنے والا انسان اسے دماغ کا خلل نا کہے تو کیا کہے۔البتہ اقبال اور غالب نے عشق کو سمجھا لیکن افسوس کے اکثر لوگوں نے انہیں نا سمجھا۔ کروڑوں اور اربوں میں کھیلتی بولی ووڈ ہو یا نجی ٹی چینلز کے رنگین ڈرامے سب نے پیار ، عشق اور محبت کو جنس بنایا اور اسکی تجارت کی۔گویئے اور گائیک بھی پیچھے نہ رہے ، زبان و بیان کے ٹھیکہ داروں نے بھی خوب خوبدوکان چمکائی۔

ہاں اس بندر بانٹ میں اگر برا ہوا تو بیچاری، پیار، محبت اور عشق کا کہ ایسی رسوا ہوئی کہ شریفوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے آنگن سے باہر نکال دیااور بیچاری اندھیری گلیوں میں نفس کے پجاری آوارہ گردوں کے ہاتھ لگ گئی اور ناجانے ابھی اوراسے کتنے لوگوں کے کرتوتوں سے پامال ہونا ہے کہ کسی سبزی فروش کی آٹھویں پاس بیٹی ہو یا کوئی گوالے کانکما بیٹا، کسی ارب پتی رئیس کی بگڑی ہوئی اولاد ہو یا کوئی فیشن اور گلیمر کی دنیا کی ہردل عزیز باربی ڈول، کسی یونیورسٹی کی کلاس سے بنک مارتا شہوت پرست جوڑا ہویا کوئی خوف خدا سے عاری بازار حسن کے تاجر و مزدور ہر کسی نے اپنے دھندے کو پیار، محبت اور عشق کا نام دے رکھا ہے میرے نزدیک اگر کوئی پسندیدگی کو پیار ، محبت اور عشق کے سطح پر لیں جائے، اس پر دیوانگی، اور وارفتگی کا جھوٹا راگ بجائے تو یہ جزبات کے ساتھ، حقیقت کے ساتھ اور سچے پکے عشاق کے ساتھ جن کا عشق زمانہ و مکان کی قید سے آزاد، ہمیشہ کے لئے امر ہوتا ہے ، سراسرظلم ہوگا ۔لیکن لوگ اس پر بھی بس نہیں کرتے ایسے احساسات کو جو نفس کی قید میں الجھا، بدن کے تقاضوں میں جکڑا اوروقت اور ضرورت کی زنجیروں میں بندھا ہو کو بھی پیار، عشق اور محبت پر قیاس کرنے لگتے ہیں، حالانکہ یہ سب دماغ کا خلل، روح کی آورگی اور بدن کی بھوک کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ جب روح نقل مکانی کرجائے، بدن کی بھوک مٹ جائے، اور وقت اپنے نشیب و فراز سے گزر کر بدل جائے تو کیا ہوتا ہے ، بڑے بڑے عاشق و معشوق کہلانے والے بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں اور نظریں ملانا تو درکنار نام سننے کے بھی روار نہیں رہتے۔

 اگر یہ سب نہ بھی ہو تو کم ازکم وہ احساسات باقی نہیں رہتے جسے اچھے بھلے بھی اپنی کل متاح سمجھ بیٹھتے ہیں۔ پھر ایسے ہی د لجلے پیار، عشق محبت کو فریب ، مال اور وقت کا ضیاع اوردماغ کا خلل قرار دئے پھرتے ہیں۔ حالانکہ ا نہوں نے پیار، محبت اور عشق یا ان میں کچھ بھی کبھی کیا ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ہرگزیہ نہیں کہا کہ مرد و عورت کے بیچ کبھی کوئی عاشق و معشوقی قائم نہیں ہوتی، ایسا ہوتا ہے، یقینا لوگ ایک دوسرے سے پیار، عشق اور محبت کرتے ہیں، لیکن ایسے عشق کا ادراک اور تجربہ ہمیں کم ہی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سچے پکے عاشق کبھی اپنے عشق کا ڈھنڈورا نہیں پٹتے اوروہ اظہار کی رائج طریقوں کے بھی محتاج نہیں ہوتے۔

 ایسے عشاق ہمارے گھروں میں بھی ہوسکتے ہیں، کم ازکم میں نے اپنے گھر میں اپنے والدین کو ایسا ہی پاکیزہ رشتہ میں بندھے دیکھا۔ اقبال نے ستاروں سے آگے کی بات کی اور لوگ زمین سے اٹھنے کے لئے بھی تیارنہیں، غالب نے فلک کی رعنائی کا منظر باندھا لیکن لوگ ابھی دریاوں اور پربتوں تک بھی نہیں پہنچے ۔سو لوگ جسے پیار محبت اور عشق کہتے ہیں عشاق اسے شناسائی سے بھی پہلے کی کوئی بے ضررر سی پسندیدگی یا کوئی وقتی اور حادثاتی تعلق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔میں نے اویس کرنی سے یہی سنا ہے، رابعہ بصری مجھے یہی بتاتی ہیں، سعدی، حافظ اور رومی کا مسلک بھی یہی ہے۔

بقول شاعر؛

مکتب عشق کہ دستور نرالے ہیں
اسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یا یاد کیا

اگر عقل سلیم ہو تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ عشق مجازی بھی ہوتا، حقیقی بھی، کم بھی ہوتا اور زیادہ بھی اور گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی۔ مجازی عشق کی کچھ حدود ہوتی ہیں لیکن حقیقی تمام حدود قیود سے آزادہی رہتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جوواقعی کسی سے پیار، محبت اور عشق کرنے لگتے ہیں لیکن ایسے لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں جو مجازی سے حقیقی اور حقیقی سے مجازی عشق کا سفر کرتے ہیں پھر یہ عشق وہ نہیں ہوتا جس پر غالب کہ اٹھے کہ

 

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندا ہائے گل

کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا 

 

10 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو