احکامات ِشرعی لباس و اہمیت
محترم قارئین کرام
! اللہ رب العزت نے بنی نوح انسان کو اپنا خلیفہ بناکر اس دنیا میں بھیجا اور
اس کی تن پوشی کے لئے لباس کو پسند فرمایا کیونکہ عریانیت اللہ رب العزت کے یہاں
انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہمارے ماں باپ حضرت بی بی حوا اور حضرت آدم ؑ بھی
بلاشبہ حیادار تھے۔ جب ابلیس کے جال میں پھنس جانے کی وجہ سے ان کے جسم سے جنت کا
لباس اتر گیا، تو وہ بہشت کے درختوں سے پتے توڑ توڑکر کر اپنے جسم کو چھپانے لگے
اور اللہ تعالی سے فریادیں کرنے لگے کہ "اےہمارے رب ہم سے خطا ہوگئی ؟’’ہمیں
معاف فرما‘‘۔ ارشاد ربانی ہے
’’اے اولاد آدم ہم نے تم
پر پوشاک اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری
کا لباس ہے “پھر فرمایا
’’اے اولاد آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو
بہکاکر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتار وادئے تاکہ ان کے ستر کھول کر
دکھادے وہ اور اس کالشکر تم سب کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان سب کو نہیں
دیکھ سکتے”
دوسری طرف ابلیس اور اسکے
لشکر کو برہنگی، عریانیت ،فحاشی اور بے حیائی بہت پسند ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
یہ وہ ام الخبائث ہے جو کئی اور برائیوں کی نشو نما کرتی اور انہیں پالتی پوستی
ہے۔ شیطان نے اس لئے سب سے پہلے انسان کے لباس پر حملہ کیا۔ آج بھی شیطان کے
پیروکار اور اسکا لشکر فحاشی پھلانے میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے
ہیں، کہیں آج کی عورت کو ماڈرن ، ترقی پسندیت اور آزادی نسواں کا
پرفریب اور دلکش نعرہ دیا اور اسے جنسی کھلونا بناکر بازار کی زینت
بنا دیا، کہیں عریانیت کو فطرت کا نام دیا گیا، تو کہیں فیشن اور جدت
انگیزی کے نام پر انسان کوایسی مادر پدرآزادی دی کہ اسے اشرف المخلوقات کہ
مقام سے گرا کر حیوانیت ، جنونیت کے درجے پر لاکھڑا کیا، تو کہیں اسے احساس کمتری
کی پاتال میں ایسا گرایا کہ وہ خود اپنی تہذیب سے متنفر اور بیزار ہوکر ابلیس کےلشکر کا نمائندہ بن گیا۔
افسوس کہ مسلمان جنہیں
تمام اقوام عالم کے لئے شرافت، شرم و حیا اور پاکیزگی کی اعلیٰ مثال اور
نمونہ ہونا چاہئے تھا آپ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر روشن خیالی
کے نام پر اس شیطانی تہذیب و تمدن کو اپنے لئے باعث فخر و افتخار سمجھنے لگے
ہیں اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے لباس کو تنگ نظری، قدامت پرستی اور تہذہب کہن
قرار دیتے ہیں۔ انکی اس خام خیالی کے مطابق مرد کی کھلی ہوئی پنڈلیاں، سر کی
ٹوپی اور پجامہ عصر حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ذرہ کوئی ان سے پوچھے
عصر حاضر کے تقاضے کیا ہیں ؟ تو اہل مغرب کی شرم و حیا، اخلاق، روحانیت اور
پاکیزگی سے عاری بدنمامعاشرے کی فورا تصویر آپکے سامنے رکھ دیں گے۔عورت کاحجاب بھی انکے لئے باعث شرمندگی ، توہم پرستی اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ
بن چکا ہے کیونکہ جب تک اپنی برہنہ آنکھوں سے نیم برہنہ عورت کو دیکھ
نہ لیں انکی روشن خیال (خام خیالی) کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں شیطان
کے مکروفریب ، جعلسازی اور دھوکے کے تانے بانے سے بچنے کی بار بار ہدایت کی ہے
لیکن جن کے قلوب شیطان کی طرف مائل ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت
اور انکی عظیم سنتوں کے باوجود برہنگی اور بدتہذیبی کو بطور فیشن، اقوام عالم میں
قبولیت کی سند اور عصر حاضر کے تقاضے سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں، اور معاشرے میں
فحاشی اور عریانی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ہانکے جارہے ہیں۔
لباس کا بنیادی مقصد
اس ڈھال کی مانند ہے جوایک انسان کو دوسرے کی نظروں میں بے پردہ ہونے سے
بچاتا ہے لیکن وہ لباس جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، یا دوسروں پر برتری
حاصل کرنے کے لئے یا کسی قوم کی مشابہت حاصل کرنے کے لیئے پہنا جائے قیامت کے روز
وہ تمام حقائق سمجھا دیگا جو دنیا کی محبت ، دوسروں کو خوش کرنے ، زمانہ کیا کہے
گا ؟ دکھاوے کا پہناوا کر کے تکالیف کا باعث بنتے ہیں کہ سوچ بوجھ پر تالے پڑجاتے
ہیں ۔
لباس کی کوئی خاص
شکل یا ہیت شریعت مطہرہ نے متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا،
فلاں برینڈکا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں، ہر مقام، ماحول کی
ضروریات، ثقافت ، رسم ورواج اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں
تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں البتہ کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں
کہ ان کہ خلاف جانا سختی سے ممنوع ہے اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی
جو وضع قطع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ وہ حدود مندرجہ ذیل ہیں۔
لباس اتنا چھوٹا ،باریک
یا چست نہ ہوکہ وہ اعضاء جسم ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔
ارشاد ربانی ہے ’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارے ستر
ڈھانکے ‘‘
٭ لباس ایسا ہونا چاہیے جو پورے
بدن خاص طور پرستر کو ڈھانپے، یاد رہے مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک اورعورت کا ستر
اسکا پورا بدن ہے ماسوائے چہرے، ہا تھ اور پاؤں کے۔
٭ ایسے تمام لباس جو بہت زیادہ باریک
ہوں کہ ان کے پہننے کے باوجود پورا بدن یا بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہو یا یہ
امکان ہو کے پسینے یا کسی اور وجہ سے بھیگ کر جسم کو ظاہر کردے گا سے گریز واجب
ہے۔
٭ ایسے تمام لباس جو اتنے چست ہوں کہ
ان کے پہننے سے بدن کے خدوخال اور وضع قطع ظاہر ہو کا پہننا بھی ہرگز جائز نہیں،
اسکن فٹنگ ، سکرٹ، جینس کی پینٹس کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جسم کی خدوخال اور
بناوٹ کو ناصرف واضع کرتا ہے بلکہ اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے یہاں تک کہ
ادائیگی نماز میں بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
لبا س کے متعلق قرآن
وحدیث کی روشنی میں دیگر مقامات پر کچھ اہم نکات بیان کئے گئے ہیں جو کہ درج ذیل
ہیں:
لباس محض شہرت حاصل کرنے
یا تکبر کی نیت سے ہرگز نہ پہنا جائے
آپﷺ نے فرمایا ’’جس
نے مشہور ہونے کے لئے کپڑا پہنا ، اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ایسا ہی لباس پہنا
ئے گا اور اس میں آگ لگادیگا‘‘دوسری روایت میں آپﷺ نے فرمایا ’’جو شخص تکبر
کی راہ سے اپنا کپڑا لٹکائے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو دیکھے گا بھی نہیں‘‘۔
خواتین مردوں کے لباس اور
مرد خواتین کے لباس ہرگزنہ پہنیں
آپ ﷺ نے اس مرد پر لعنت
کی جو عورتوں کا لباس پہنے اوراس عورت پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کا لباس
پہنے‘‘۔ایک اور حدیث میں یوں آیا ہے کہ’’ حضرت عائشہؓ سے کسی نے کہا کہ ایک
عورت مردانہ جوتا پہنتی ہے ، ام المومنینؓ نے کہا رسول ﷺ نے مرد بننے والی عورت پر
لعنت کی ہے‘‘
کچھ احساس کمتری کے ستائے
ہوئے کم ظرف ایسے ہیں کہ مخالف جنس کی شباہت اختیار کرتے ہیں اور اسے فیشن اور
روشن خیالی سمجھتے ہیں، یہ نفس کے بندے اللہ کی اطاعت کے بجائے اپنے دل کی بے راہ
روی میں مبتلا ہیں ، یقیناُ ایسے لوگ صریح گمراہی پر ہیں۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں
ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے خواہش نفس
کواپنا خدا بنا رکھا ہے تو کیا تم ان پر نگہبان ہوسکتے ہو؟‘‘
لباس میں کافر و فاسق کی
مشابہت اختیار نہ کی جائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا’’جس نے
کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے‘‘
وہ لباس جو کسی کافر و مشرک قوم کی شناخت ہو پہننا درست نہیں۔ جیسے ’زنار‘ ہندوؤں
اور ’ٹائی‘ اہل مغرب (یہودنصارٰی) کی شناخت ہے۔ شرٹ کے مقابلے میں لمبا کرتا اور
ٹائی کے مقابلے میں ٹوپی اور عمامہ مسلمانوں کی ذاتی شناخت اوربشمول آپﷺ تمام
انبیاء علیہ السلام کی سنت مطہرہ ہے۔ اسی لمبے کرتے سے متعلق قرآن و سنت میں حضرت
یوسفؑ کا قول یوں نقل ہے کہ ’’یہ میراکرتا لے جاؤ اور میرے باپ کے منہ پر
ڈالدو وہ بینا ہوجائینگے‘ “آپﷺنے عبداللہ بن ابی سلول کی موت پر اسکے مسلمان
بیٹے کو اپنا کرتا دے دیا تاکہ وہ اسے اپنے باپ کو پہنا دے‘‘
ذہن میں رکھیں کہ یہاں بحث یہ نہیں کہ اہل مغرب کا لباس حرام ہے یا حلال، مسئلہ یہ
ہے کہ کونسا سا لباس تقویٰ اور پرہیزگاری کا لباس ہے، وہ لباس جو مسلمانوں کی
خاص شناخت ہے اور آپ ﷺ اور صحابہ سے ہو کر ہم تک پہنچا یا وہ لباس جو نوآبادیاتی
دور میں انگریز حاکموں کی طرف سے محکوم عوام پر یہ کہ کر تھونپا گیا کہ یہ
لباس Executive ہے
اور مقامی لباس جدت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے ۔
انگریزوں کا مقصد
ہندوستانیوں خاص طور پہ مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کو مٹانا اور انہیں گمراہ
کرنا تھا۔مگر سلام ہے ہمارے اسلاف پر کہ انہوں نے انگریز حکمرانوں کی تہذیبی یلغار
کا مقابلہ کیا اور غلامی کے دور میں بھی اپنی دینی روِش نہیں بدلی مگر آزادی کہ
بعد ہم نے خود بحیثیت مسلمان ایسے ایسے کام کئے جو دو سو برس میں اثرورسوخ
کے فرنگی راج نہ کرسکی۔ ہم نے مغربی اور بدبو دارتہذیب کو روشن خیالی ،ترقی اور
وسعت دماغی کے نام پر نا صرف قبول کیا بلکہ تہذیبِ مغرب اور اسلام کو یکجاں کرنے
کی ہر ممکن کوششیں کیں جس کا جہاں بس چلااہل مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے
لئے اس نے دین کی آڑ میں ہر وہ کام کیے جس کی شریعت میں ہرگز اجازت
نہیں۔ لباس سے جو معاملہ شروع ہوا، وہ زندگی کے تمام گوشوں پر اثرانداز ہوتے ہوئے
اپنی انتہاکو پہنچ چکا ہے اور یوں اس فرنگی جال میں مسلمانوں کو اسلام کی اصلی روح
سے بہت دور کر دیا ۔کبھی فرقہ واریت کے ذریعے، کبھی عریانیت اور فیشن کے نام
پر، کبھی غلیظ سازشوں کے ذریعے،لٹریچر اور رسوم و رواج میں بے تحاشا تبدیلیاں کر
کے، غرض یہ کہ جہاں اس کی چھری چلتی گئی وہ چلاتا گیا،اور ہم خود کو نیلام کرتے
گئے دولت اور ہوس کی پوجا کرتے ہوئے۔
مفتی شفیع احمد
عثمانی کے مطابق’’ ایک شخص ابتدا میں صرف انگریزی جوتا استعمال کرتاہے اور
سمجھتا ہے کہ اس سے ہم انگریز نہیں بن گئے، لیکن تھوڑے عرصے میں وہ یہ دیکھ لے گا
کہ یہ انگریزی جوتا اس کے بدن سے اسلامی پاجامہ اتر واکرٹخنوں سے سے نیچا پاجامہ
پہننے پر مجبورکر دے گا، پھر یہ پاجامہ اس کاکرتااور عبا اتروائے گا اور جب اعضاء
ا ور جوارح اور بدن انسان کی پارلیمنٹ کے سب مغربی رنگ کے ہوگئے تو اس کے سلطانِ
سر تاج کومجبور ہوکر انکا تابع بننا پڑے گااور انگریزی ٹوپی اسلامی عمامے کی جگہ
لے گی اور جب خود گھڑے گھڑائے صاحب بہادرہوگئے تو سمجھ لیجئے کہ اب گھر کے قدیم
اصول و رواج کی خیر نہیں، کیونکہ یہ کسے کسائے صاحب بہادرکسی مسند پر نہیں بیٹھ
سکتے ، دستر خوان پر کھانا تناول نہیں فرما سکتے ، نماز کیلئے بار بار وضو نہیں کر
سکتے ۔ غرض گھر کا پرانا فرنیچر ، رخصت ، طہارت و عبادت رخصت،‘‘. …… دیکھ لیا ایک
انگریزی جوتے کی آفت کہاں تک پہنچی اور کس طرح اس نے تمہارے دین او ر دنیا کو تباہ
کر ڈالا، حقیقت میں گناہوں کا ایک سلسلہ ہے ۔ جب انسان ایک خطا کرتا ہے تو دوسرااس
سے خودبخود لگ جاتا.. ایک حدیث میں ہے کہ نیکی کی فوری جزا یہ ہے کہ اس کے دوسری
نیکی کی توفیق ہوتی ہے اور گناہ کی فوری سزا یہ ہے کہاس کے بعددوسرے گناہ میں
مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ
حیات ہے جس میں زندگی کے ہر گوشے میں ہمارے لیے کامل ہدایت موجود ہے، ہمارے پاس
امور مملکت سے لے انفرادی زندگی تک ہر معاملے میں نا صرف احکامات ہیں بلکہ آپﷺ کی
صورت میں ایک بہترین عملی نمونہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ٰہے کہ
’’ تم کو رسول اللہ ﷺ کی پیروی بہتر ہے‘‘چنانچہ اسلام ہم سے اس بات کا متقاضی
ہے کہ ہم ایسی قوم بنیں جس کی دوسر ی قومیں تقلید کریں مگرہمارا یہ حال ہو چکاہے
کہ ہم ہر معاملے میں اہل مغرب کی تہذیبی چکاچوند کا شکارہیں، یہ سلسلہ مسلمان جیسی
شاندار قوم کی وقار کے عین خلاف ہے ،
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ
ہم اس روشن خیالی کے دھوکے سے نکل کر دامن سنت نبویﷺ میں آباد ہوجائیں، یہود
نصارٰی کی نقالی کے بجائے آپ ﷺ اور تقلید میں عافیت جانیں۔ اپنی قومی و ملی شناخت
اور اپنے آباء کے ورثے پر فخر کرتے ہوئے قوموں کی برادری میں غیرت مند اور خودمختار
قوم کی حیثیت سے آگے بڑھیں۔ شروع میں دقت آئیگی مغربی یلغار کے ترنوالے جگہ جگہ
روکاوٹیں پیدا کرینگے ، لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے ، آپ کو ملازمتوں سے
برخاست کیا جائے گا ، مگر ایسے لمحات میں یہ یاد کیجیے گا کہ قرون او لیٰ کے
مسلمانوں نےکس قدر سخت رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اللہ کی رضاحاصل کی اور پھر خود
اللہ نے کہا ’’ وہ مجھ سے راضی اور میں ان سے راضی‘‘
مرد ریشمی لباس ہرگز نہ
پہنیں اور نہ ہی چمکیلے اورشوخ لباس
ایک روایت کے مطابق آپﷺ
نے فرمایا کہ ’’جو کوئی دنیا میں ریشمی کپڑاپہنے اس کو آخرت میں یہ کپڑا نہیں
ملے گا" دوسری روایت کے مطابق حضورر اقدسﷺنے مردوں کو زعفران
کے رنگ(زرق برق لباس) سے منع فرمایا‘‘
زیب و زینت کے لئے لباس
کاپہننا۔
جہاں اسلام نمود نمائش ،
بدتہذیبی اور عریانیت کے خلاف ہے وہاں زیب و زینت سے ہرگز نہیں روکتا اچھا دِکھائی
دیناتمام انسانوں کا حق ہے اورایک حد میں زیب و زینت اور بناؤ سنگار جائز ہی نہیں
بلکہ مستحب بھی ہے ، ارشاد ربانی ہے: ’’اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک
اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے‘‘
جو لوگ باوجود استطاعت کے
اجڑے ہوئے، بے سلیقہ اورپرانے کپڑے پہنتے ہیں انکا یہ عمل ہرگز اسلام پر نہیں بلکہ
سنت نبویﷺکے خلاف ہے، ’ ’حضرت براء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ میانہ قامت تھے، میں نے
آپﷺ کو ایک سرخ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا ، اتنا خوبصورت میں نے کسی کو نہیں
دیکھاْ ‘‘
صاف ستھرا لباس کا پہننا۔
اسلام دین فطرت اور صفائی
کو پسند کرتا ہے آپﷺ کا ارشاد ہے کہ’’ طہارت نصف ایمان ہے‘‘ اسلام میں ایسا
لباس جائز نہیں جس پر نجاست لگی ہو اسی طرح میلا لباس بھی ناپسندیدہ ہے ۔آپ ﷺ
ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک لباس زیب تن فرماتے ، اور صحابہ آپ کی تقلید کرتے
تھے ۔
اپنی مالی استطاعت کے
مطابق لباس خریدنا اورپہننا۔
مسلمانوں کو ا پنی مالی
استطاعت کے مطابق لباس پہننا چاہیئے۔ غریب لوگوں کا شاہانہ لبا س پہننا فضول خرچی
اور امیر لوگوں کا معمولی لبا س پہننا بخل اور ناشکری اور دونوں باتیں اسلام میں
منع ہیں۔ آپﷺنے شاہانا لباس بھی پہنا اور معمولی لباس بھی ،مقصد دنوں کے لیے اپنی
مثال قائم کرنا تھی۔ دونوں کو چاہئے کہ وہ حد اعتدال کی راہ پر رہیں امیر اتنا
زیادہ شاہانا لباس بھی نہ پہنیں کہ غریبوں کے دل میں حرص اور احساس کمتری پیداہو،
اور غریب اتنا گھٹیا لباس نہ پہنیں کی دیکھنے والا اسے حقیر اور کمتر جانے۔
مرد اپنے لباس
(شلوار) کو ٹخنے سے نیچے نہ کریں
مر د کا اپنے لباس کو
ٹخنے سے نیچے گرانا سخت گناہ ہے ، اس حوالے سے بیشمار صحیح حدیثیں سے موجود ہیں جن
میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا’’جو کپڑا ٹخنے سے نیچے ہو جہنم میں لے جائے
گا" ۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ’’ ایک صحابی آپ ﷺ کے سامنے نماز ادا کرکے حاضر
ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں اپنی نماز دہرانے کا حکم دیا، نماز دہرانے کے بعد صحابی
دوبارہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے نماز دہرانے کے متعلق سوال کیا آپ ﷺ نے جواب
دیا کہ تمہارا لباس تمہارے ٹخنے سے نیچے تھا اسلیئے تمہاری نماز نہیں ہوئی
تھی‘‘آج کل بعض لوگ تواترکے ساتھ یہ غلط فہمیاں پھلا رہے ہیں کہ اسلام میں کپڑے
خاص طور پر پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کے لئے نیچے سے اوپر کی طرف فولڈ کرنا منع
ہے۔ ایسی بات بالکل من گھڑت ہے اور اس میں کوئی سچائی نہیں ، صحیح حدیثوں کے ذخائر
میں ایسی کوئی بات ہم تک نہیں پہنچی
Ache baat hai
جواب دیںحذف کریںTrue information
جواب دیںحذف کریںAllah amal ki toufeeq ata farmay
جواب دیںحذف کریںWell said
جواب دیںحذف کریںAllah bachaye humbko
جواب دیںحذف کریںKia baat hai
جواب دیںحذف کریںAllah amal ki toufeeq dey sb ko
جواب دیںحذف کریں