3 ایسے فتنے جو عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں۔
دوستو سائنسی نقطہ نظر سے ایک عام چیونٹی کی اوسط عمر تین ماہ سے
چھ ماہ ہوتی ہے، لیکن حیران کن بات یہ ہےکہ خوراک یہ پورے سال بھر کے لئے جمع کرتی
ہے۔دوسری طرف اگر میں بات کروں شہد کی مکھی کی تو اس کی عمر چھ ہفتوں کی ہوتی ہے ان
تھوڑے سے دنوں میں وہ اتنا کام کرتی ہے کہ شہد تیار کر جاتی ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔
چیونٹی
سے ہم نے حرص ، طمع اور لالچ سیکھی اور اپنے لئے عارضی دنیا کا مال ومتاع جمع کرنا
شروع کر دیا۔ اس قدر جائز و ناجائز مال اکٹھا کیا کہ اپنے گھر میں رکھنے کی جگہ تک
نہیں بچی، اس دوڑ میں اتنےغافل ہو گئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کتنے لوگ کے ارمانوں
کا قتل کر آئے ہیں، اپنے اردگرد کمزور اور ناتواں کا تو ہوش تک نہیں، پتہ اس وقت
چلتا ہے جب کسی دوسرے کے منہ سے یہ سنتے ہیں کہ فلاں پڑوسی فوت ہوگیا ہے یا مسجد
میں جنازے کا اعلان سنائی دیتا ہے۔اس وقت آواز سنائی دیتی ہے کہ فوت ہونے والا شخص
کئی دنوں سے بیمار تھا اور ہمارے پاس عیادت کرنے کی توفیق نہیں تھی۔
دوسرا
سبق ہم نے شہد کی مکھی سے سیکھا کہ اپنی مختصر سی زندگی میں بھی وہ ہمارے لیے کس
قدر مفید شہد تیار کرکے بھلائی کرتی ہے،جبکہ ہم نے کچھ اور رنگ سے سیکھا کہ کیسے
دوسرے کے مال و متاع پر قبضہ کرنا ہے۔کیسے کسی کا حق مارنا ہے، چاہے وہ جائیداد
ہو، روپیہ پیسہ ہو، حقوق کی پامالی ہو، رشورت خوری، غیبت ہو، چوری چکاری ہو،
آئیے
اس بات کو ہم دوسرے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ بات تو عیاں ہے کہ جن
کاموں سے روکا گیا وہ کام ہم ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور جن کاموں کو کرنے کا حکم
دیا گیا وہ ہم سے ہوتے نہیں ہیں۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا " قیامت
اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تین فتنے ظاہر نہ ہو جائیں"۔پھر آپ ﷺ نے"
فتنہ احلاس "(حلس اس موٹے کالے رنگ کے کپڑے کو
کہتے ہیں جو اونٹ کی پیٹھ پر کجاوے کے نیچے ڈالاجاتا ہے۔یہ کپڑا ہمیشہ اونٹ کی
پیٹھ سے چمٹا رہتا ہے، اسی طرح یہ فتنہ بھی لوگوں سے چمٹ جائےگا اور ان کی جان
نہیں چھوڑے گا)کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ !
"فتنہ احلاس" کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا "یہ افراتفری اور جنگ و جدل
کا فتنہ ہوگا۔(یعنی کسی شخص کا مال اور اہل و عیال
چھین لینا اور اسے اس طرح چھوڑ دینا کہ اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے) پھر ایک خوشحالی کا فتنہ ظاہر ہوگا ( یعنی صحت ، خوشحالی اور امن و عافیت کی بہتات ہوگی، جس کی
وجہ سے بعض لوگ فتنے میں مبتلا ہو کر گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے) جو ایک ایسے شخص کے قدموں سے اٹھے گا جو میرے
اہل بیت سے ہوگا۔ وہ خود کو مجھ سے تعلق رکھنے والا خیال کرے گا مگر درحقیقت اس کا
مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ میرے دوست تو فقط وہ ہیں جو متقی ہیں۔ پھر لوگ ایک
ایسے شخص کی بیعت پر اکٹھے ہو جائیں گے جو کم علم ، کم عقل اور کم ہمت ہوگا۔(یعنی لوگ اختلاف اور
فساد کے بعد ایک ایسے شخص کی حکمرانی قبول کر لیں گے جو بادشاہی کی نازک اور عظیم
ذمہ داری کے لئے قطعاناموزوں ہوگا وہ کم علم، اور کم عقل ہوگا۔ اس کے ذریعے نظام
حکومت قائم نہ رہ سکے گا اور نہ ہی امورو معاملات صحیح رہ سکیں گے۔) اس کے
بعد ایک سیاہ تاریک فتنے اور اندھی مصیبت کا دور شروع ہوگا۔(اس فتنے کو آپ ﷺ نے آگ سے اٹھنے والے دھوئیں سے تشبیہ دی ہے
جو آگ میں گیلا ایندھن ڈالنے کی وجہ سے اٹھتا ہے وہ دھواں بہت کثیف اور زیادہ ہوتا
ہے) اس فتنے کا اثر اور ضرر میری امت کے ہر شخص تک پہنچے گا اور کوئی بھی ا
سے محفوظ نہیں رہے گا۔ جب بھی کہا جائے گا کہ یہ فتنہ ختم ہوگیا ہے تو وہ پہلے سے
بھی زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔ آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے
گا۔ لوگ دو قسموں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک ایمان والے جن میں نفاق نہیں ہوگا
اور دوسرے نفاق والے جو ایمان سے یکسر خالی ہوں گے۔ جب یہ حالات پیدا ہو جائیں تو
اس وقت دجال کا انتظار کرنا اسی روز آجائے یا اگلے روز ظاہر ہو جائے۔"
تاہم
یہ نشانیاں ابھی پوری طرح سے واضح نہیں ہوئی ہیں لیکن ان کی ابتدائی اشکال ظاہر ہورہی
ہیں۔ا گر ہم آج اپنے ملک کے حالات دیکھیں تو کیا ہمارے ملک کے حکمران اس حدیث میں
دئیے گئے اشاروں پر پورا نہیں اتر رہے، جنگ وجدل کا سامان تیار ہورہا ہے، لوگ غفلت
کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔آئیے دن کوئی نہ کوئی نبوت کے جھوٹے دعوے کرنے لگتا ہے
کہ میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت
تک ظاہر نہ ہوگی جب تک تیس جھوٹے نبوت کے دعویدار ظاہر نہ ہو جائیں"۔
اے
حضرت انسان چار دن کی زندگی ہے اس کو اللہ کے احکامات کے مطابق گزار لو۔ایسا نہ ہو
کہ فتنوں کی عمیق گہرائیوں میں ڈبوتے چلے جاؤ کہ احساس ہی نہ رہے کہ ہم سے کیا
بھول ہوئی ہے۔
اے اللہ
کے بندے ایک دوسرے کے وقت آنے سے پہلے ایک دوسرے کو وقت دینا سیکھو. یاد رہے کہ ہم کوئی چیونٹیاں نہیں جو ہم سے
حساب نہ ہوگا۔یا ہم وہ چڑیا نہیں کہ جسے
دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رو کر کہتے ہیں کہ اے چڑیا! تیرا تو حساب کتاب نہیں ہوگا
مگر ابوبکر کا ہوگا۔
Stimulating perspectives,An article that
جواب دیںحذف کریںprovokes thought and reflection.
O man is it true?
جواب دیںحذف کریںamazing
جواب دیںحذف کریںAllah hum sb k gunnah maaf farmaye... Ameen
جواب دیںحذف کریں