google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 27- میلاد منانا یا کرانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

اتوار، 15 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 27- میلاد منانا یا کرانا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                          27-        میلاد منانا یا کرانا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں ستائیسواں گناہ میلاد منانا یا کرانا ہے ۔ اس سے پہلےتواتر سے کئی آرٹیکل جو میں تفصیل سے شئیر کر تا آرہا ہوں اگر آپ ان کو پڑھنا چاہیےتو نیچے دئیے گئے ویب سائٹ لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ، کسی  جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا وغیرہ۔

 

میلاد منانا یا کرانا حضور نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کا جشن منانے کو کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ نبی ﷺ کی محبت میں یہ جشن مناتے ہیں اور اس دن مختلف تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں نعتیں پڑھنا، جلوس نکالنا اور میلاد کی محفلیں منعقد کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ جشن نبی ﷺ کی تعلیمات یا صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔

 


میلاد کی روایت اسلام میں نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں موجود نہیں تھی بلکہ یہ بدعت بعد کے ادوار میں داخل ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس رسم میں مبالغہ آرائی اور مختلف خرافات شامل ہو گئیں، جیسے جلوس نکالنا، ڈھول بجانا، اور رنگ برنگی روشنیوں کے ساتھ محفلیں سجانا، جھنڈیاں لگانا، بازار سجانا، گھروں کو سجانا، کپڑوں پر بیج آویزاں کرنا، سبز پگڑیاں پہننا وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں دین میں بغیر کسی شرعی دلیل کے داخل ہو چکی ہیں۔

 

1-   میلاد منانے والوں کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ نور ہیں، اور نور کی ولادت نہیں ہوتی۔ اگر وہ نور ہیں تو پھر ولادت کا جشن منانا غیر منطقی ہے۔ اس سوال کا جواب دینا ان کے عقیدے میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔

 

2-   اگر میلاد منانے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں، تو پھر ان کی آمد کی خوشی منانا بھی ایک تضاد ہے۔ یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ اس عقیدے اور عمل میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔

 

3-   بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ کی وفات نہیں ہوئی اور وہ دنیا میں زندہ ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر نبی ﷺ کی عمر کا ذکر اور ان کی وفات کی تاریخ کیوں بیان کی جاتی ہے؟ اس تضاد کو سمجھنا ضروری ہے۔

 

4-   احمد رضا خان بریلوی کے بقول نبی ﷺ کی وفات 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ اگر یہ دن وفات کا دن ہے تو پھر اس دن عید اور خوشی منانا دینی اور عقلی لحاظ سے درست نہیں ہو سکتا۔ دین میں کسی بھی نبی کی وفات کا دن خوشی کا دن نہیں ہوتا۔

نبی ﷺ کی پیدائش کا جشن منانا صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین یا ائمہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔ نہ ہی رسول ﷺ نے خود اپنے میلاد کو منانے کی تعلیم دی اور نہ ہی خلفائے راشدین نے اس کا اہتمام کیا۔ جو چیزیں دین میں نہیں تھیں اور بعد میں شامل کی گئیں، انہیں بدعت کہا جاتا ہے۔

 

بعض لوگ میلاد کی محفلوں میں خصوصی پکوان تیار کرتے ہیں اور اس کا حصہ بننا لازم سمجھتے ہیں۔ اسلام میں کھانے پینے کی کوئی خاص قید نہیں ہے، لیکن دین میں میلاد کی رسم بدعت ہے، اس لیے اس موقع پر بنائے گئے پکوانوں میں شریک ہونا بھی اس بدعت کا حصہ بنتا ہے۔

 

میلاد کے موقع پر جلوس نکالنا، ڈھول بجانا، اور بعض اوقات رقص کرنا عام ہوتا جا رہا ہے، جو کہ سراسر دین کے خلاف ہے۔ یہ عمل نہ صرف بدعت ہے بلکہ اس سے دین کے تقدس کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کا دین میں اس طرح کا کوئی عمل نہیں تھا۔

 

آج کل میلاد کی محفلوں میں نت نئے گانوں کی طرزوں پر نعتیں گائی جاتی ہیں، جو سراسر دین کے خلاف ہیں۔ نعت کا مطلب ہے نبی ﷺ کی تعریف کرنا، لیکن موسیقی اور گانے کی طرزوں میں اسے پیش کرنا دین میں ایک بدعت ہے۔ یہ عمل نبی ﷺ کے پیغام کو مسخ کرتا ہے اور دین کی حقیقی روح کو کمزور کرتا ہے۔

 

مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں میلاد منانے کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بدعت نہ صرف مذہبی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے بلکہ دین میں غیر ضروری چیزوں کو شامل کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ لوگوں کا دین کی روح سے غافل ہو جانا اور غیر اسلامی رسومات کو اپنا لینا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

 

اسلام میں نبی ﷺ کی پیدائش کا دن منانے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا کہ نبی ﷺ کی ولادت کو جشن کے طور پر منایا جائے۔ نبی ﷺ نے خود اپنی حیات میں اور بعد میں صحابہ کرام نے بھی اس عمل کو انجام نہیں دیا۔

 

میلاد کے دن کیک بنانا، مصنوعی حوروں کو جلوسوں میں لاکھڑا کرنا، اور حلوے و میٹھی چیزوں کا بانٹنا ایسی رسومات ہیں جو دین میں نئی ایجادات اور بدعات کی صورت میں داخل ہو چکی ہیں۔ یہ تمام اعمال نبی ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے کہیں بھی ثابت نہیں ہیں۔ دین اسلام میں سادگی اور اخلاص کو بہت اہمیت دی گئی ہے، لیکن میلاد کے موقع پر کیک کاٹنا اور محفلوں میں جوان لڑکیوں کو حوریں  بنا کر  جشن منانا دین کی سادگی کے خلاف ہے اور لوگوں کو اصل تعلیمات سے دور کر رہا ہے۔

 

جوان لڑکیوں کو میک اپ کروا کرحوریں قرار دینا اور پھر ان کو جلوسوں میں لاکھڑا کرنایک ایسی رسم ہے جو میلاد کے جلوسوں میں دکھائی دیتی ہے، جس کا کوئی تعلق اسلام کی تعلیمات سے نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل بدعت ہے اور دین کی اصلی روح کے برخلاف ہے۔ ایسی چیزیں اسلام میں منع ہیں کیونکہ یہ اللہ کی مخلوق کا مذاق اڑانے اور دین کو کھیل تماشا بنانے کے مترادف ہے۔

 

حلوے اور میٹھی چیزوں کا بانٹنا بھی ایک نیا طریقہ بن چکا ہے جو مخصوص دنوں میں لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے نہ تو اپنی ولادت کے دن ایسے کوئی خاص پکوان بنائے اور نہ ہی اسے تقسیم کیا۔ یہ عمل اس تصور کو فروغ دیتا ہے کہ دین میں ہر موقع پر خاص کھانے اور رسموں کی ضرورت ہوتی ہے، حالانکہ اسلام نے ہر کام میں اعتدال اور سادگی کی تعلیم دی ہے۔

 

میلاد کے دن خصوصی سفید رنگ کا لباس پہننا ایک اور بدعت بن چکی ہے۔ اسلام میں لباس کے معاملے میں کوئی مخصوص دنوں یا تقریبات کے لیے رنگ کی پابندی نہیں ہے۔ دین میں لباس کے حوالے سے سادگی اور پاکیزگی کی تعلیم دی گئی ہے، نہ کہ میلاد یا کسی اور دن کے لیے خصوصی رنگ کی شرط۔ اس قسم کی رسومات دین کو محض ظاہری شکل و صورت تک محدود کرنے کی کوشش ہیں۔

 

مصنوعی جنت اور دوزخ بنانااور اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ایک اور بدعتی عمل ہے جو میلاد کی محفلوں میں نظر آتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اس سے دین کی سنجیدگی اور گہرائی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ جنت اور دوزخ کے تصورات قرآن اور حدیث میں دیے گئے ہیں اور انہیں دنیاوی تقریبات میں شامل کر کے تماشہ بنانا دین کی روح کے منافی ہے۔

 

یہ تمام رسومات اور بدعات دین میں نئے اضافے ہیں جن کا مقصد دین کے بنیادی اصولوں سے لوگوں کو ہٹانا ہے۔ اسلام نے بدعات کی سختی سے مخالفت کی ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا: "جو بھی ہمارے دین میں کوئی نئی چیز داخل کرے جو اس میں نہیں ہے، وہ مردود ہے" اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان بدعات سے خود کو دور رکھیں اور دین اسلام کو اس کی اصل شکل میں اپنائیں۔

میلاد منانے کو لوگ دین کا حصہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ دین میں ایک بدعت ہے۔ دین میں کوئی نئی چیز شامل کرنا یا نبی ﷺ کے دور کے بعد کسی نئے عمل کو دین کا حصہ سمجھنا ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ہمیں اس گناہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور دین کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے اپنانا چاہیے۔

 

جس طرح یہ بدعات تیزی سے پھیل رہی ہیں، ڈر ہے کہ لوگ کہیں اسے عید کی نماز کی طرح باقاعدہ عبادات میں شامل نہ کر لیں۔ یہ بدعتی رسومات اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ کبھی آپ ﷺ کے دانت دکھائے جاتے ہیں، کبھی کوئی کرتا پیش کیا جاتا ہے، تو کبھی زلفوں کی نمائش ہوتی ہے۔ بدعات کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کچھ لوگ نماز کا طریقہ بھی بدلنے لگے ہیں اور جوتے کی نعلین پر سجدہ کرتے ہیں، جو کہ سراسر دین کی روح کے منافی ہے۔ ان خرافات کی ترویج سے اصل اسلامی احکام اور عقائد دھندلا رہے ہیں، اور یہ بدعات مسلمانوں کو بنیادی تعلیمات سے دور کر رہی ہیں۔جس تیزی سے یہ خرافات بڑھائی جا رہی ہیں ڈر ہے کہ کسی دن مولانا الیاس قادری نبوت کا دعوی ٰ ہی نہ کر بیٹھیں، اور ان کے مرنے کے بعد ان کا مزار اور مزید بت پرستی اور قبر پرستی کا رواج ہی نہ شروع  ہو جائے۔کیونکہ بقول ان کے لوگ مرتے نہیں ہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں۔ اللہ ہمارے حال رحم فرمائے۔ آمین

 

اس گناہ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام اور اسلامی دانشور عوام کو صحیح دین کی تعلیم دیں اور انہیں بدعات سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ قرآن اور سنت کی صحیح تعلیمات کو عام کرنا اور لوگوں کو دین کی اصل روح سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

 

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

  

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو