غفلت
میں چھپے 50 گناہ
38۔ حرام کھانا
غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں اڑھتیسواں گناہ حرام کھانا ہے
۔ اگر آپ مزید آرٹیکل پڑھنا چائیں تو نیچے دئیے گئے لنک
پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
حرام کھانا اسلام میں وہ مال یا غذا ہے جو غیر شرعی طریقوں
سے حاصل کی گئی ہو، جیسے سود، رشوت، دھوکہ دہی، چوری، یا کسی اور ناجائز طریقے سے۔
حرام غذا کھانا انسان کی روحانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، اور اللہ کی
ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر حلال اور
حرام مال کے فرق کو واضح کیا ہے اور حرام مال کھانے والوں کے لیے سخت وعیدیں دی ہیں۔
دورِ جاہلیت میں بھی حرام مال کھانے کا تصور موجود تھا۔ لوگ
چوری، دھوکہ دہی، اور سود جیسے ناجائز ذرائع سے مال حاصل کرتے اور اسے استعمال
کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس دور کی بُری عادات اور رسم و رواج کی
نشاندہی کی اور اس سے بچنے کی تلقین کی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اور
اپنے اموال کو آپس میں باطل طریقہ سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حاکموں تک پہنچاؤ تاکہ
تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناحق طور پر کھا جاؤ"
ہر مذہب میں ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے اور اسے استعمال
کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ عیسائیت، یہودیت، اور ہندو مت میں بھی حرام مال کھانے کو
ناپسندیدہ اور ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور اسے روحانی نقصان کا باعث سمجھا جاتا
ہے۔ عیسائیت میں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں حرام مال کھانے کی سخت
مذمت کی گئی ہے۔ یہودیت میں بھی ناجائز مال کو حرام اور روحانی بیماری کا باعث
سمجھا جاتا ہے۔
زرتشت مذہب میں بھی حلال اور حرام مال کا تصور موجود ہے۔
زرتشت کی تعلیمات میں انصاف، دیانتداری اور سچائی کو اہمیت دی گئی ہے، اور ناجائز
ذرائع سے مال کمانا یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر مال حاصل کرنا سخت ناپسندیدہ عملسمجھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک جیسے کہ پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش
میں حرام مال کھانے کا رجحان موجود ہے۔ بدعنوانی، رشوت، اور دھوکہ دہی کے ذرائع سے
مال حاصل کرنا ایک عام مسئلہ ہے جس کا منفی اثر معاشرتی اور روحانی زندگی پر ہوتا
ہے۔ یہ عمل لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا
ہے۔ پاکستان
اور ہندوستان میں، حرام کمائی کا رجحان
افسوسناک طور پر بڑھ رہا ہے بڑے حکمرانوں سے لیکرایک عام انسان تک اس گناہ کی دلدل
میں دھنستا جارہا ہے،جعلی ادویات، جعلی خوردونوش ، حرام مرغیوں کے شوارمے کھلانے
پر، گدھوں،کتوں کھچووں اور ناجانے کیا کیاگوشت کھلانے پر، جعلی پیر، آستانے اور
گدی نشینوں کے فراڈ تعویزدھاگوں، دم درود، عرس کے ناموں، جنات اور بھوتوں کے ناموں
پر،اولادوکے ہونے نا ہونے پر، میاں بیوی کی ناچاقی، محبت حاصل کرنے پر ، عزتوں کی
پامالی پر غرض یہ کہ جہاں پر جس کا داؤ لگتا ہے بھولی بھالی عوام کو بے وقوف بنا کر خوب دولت اکٹھا
کرنا شروع کر دیتا ہے۔ معاشرتی زوال اور اخلاقی انحطاط کا باعث بنتی ہے
حرام مال کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
· سودی کاروبار سے حاصل
شدہ مال
· رشوت سے کمایا ہوا
مال
· چوری یا دھوکہ دہی سے
حاصل شدہ مال
· دوسروں کا حق مار کر
حاصل کیا گیا مال
· غریبوں یا یتیموں کا
مال ناحق ہڑپ کرنا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا
دونوں جہنمی ہیں"
اسلام میں حرام مال کھانے پر سخت وعید دی گئی ہے۔ حرام مال
کھانے والوں کو آخرت میں سخت سزا دی جائے گی اور دنیا میں بھی ان کی برکتوں کو ختم
کر دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو جسم حرام
مال سے پروان چڑھا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا"
اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: "اے لوگو! جو
کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے، وہ کھاؤ" اس طرح ایک اور مقام پر
پھر فرمایا " اے ایمان والو! جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اس میں سے
کھاؤ"
حرام مال کھانے والے کی دعائیں اللہ کے دربار میں قبول نہیں
ہوتیں کیونکہ حرام مال روح کو آلودہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قربت کو ختم کر
دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ایسا آدمی جو حرام کھاتا ہو، اس کا لباس حرام کا ہو، اور وہ
حرام سے پالا گیا ہو، تو اللہ اس کی دعا کیسے قبول کرے؟"
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے کچھ یوں وضاحت فرمائی " "ایک آدمی طویل سفر کرتا ہے، اس کے بال بکھرے ہوتے ہیں اور وہ دعا
کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام ہوتا ہے، اس کا لباس حرام ہوتا ہے،
تو اس کی دعا کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟"
ائمہ کرام نے بھی حرام مال کھانے کے بارے میں سخت ہدایات دی
ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے حرام
مال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"حرام مال سے پرورش پانے والی عبادت اور اخلاق کبھی اللہ کے قرب تک
نہیں پہنچ سکتے"
آج کے دور میں، لوگ حرام مال کھانے کو معمولی سمجھتے ہیں کیونکہ
دنیاوی خواہشات اور لالچ نے انسان کو اندھا کر دیا ہے۔ دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے
حرام مال کو جائز سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں اسے گناہ کبیرہ قرار دیا گیا
ہے۔
حرام مال کھانے سے بچنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے ذرائع
آمدنی کو حلال بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: "حلال اور
پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو" ۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی زندگی میں سادگی اختیار کریں،
حرام ذرائع سے بچیں، اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں۔
حرام مال کھانے سے انسان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو
جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے حرام ذرائع سے بچنے اور حلال کو
اختیار کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ کی رحمت اور قربت حاصل کر سکیں۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا، لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا، ہم جنس پرستی
جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا
o my God
جواب دیںحذف کریں