google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 17- سودکھانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 13 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 17- سودکھانا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                         17- سودکھانا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں سترہواں گناہ سود کھانا ہے ۔ اس سے پہلےتواتر سے کئی آرٹیکل جو میں تفصیل سے شئیر کر تا آرہا ہوں اگر آپ ان کو پڑھنا چاہیےتو نیچے دئیے گئے ویب سائٹ لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ، بھوکوں اور ننگوں کی حیثیت کے مطابق مدد نہ کرنا، بلاعذر بھیک مانگنا  ، کسی جاندار کی تصویر بنانا شامل  ہیں۔

 

اسلام میں سود (ربا) کو ایک بدترین اور کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ سود ایک ایسی مالی لین دین کا نظام ہے جس میں قرض دینے والا شخص اضافی رقم وصول کرتا ہے، جو اصولی طور پر ناحق اور ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سود کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے خلاف سخت وعید سنائی ہے۔ سود کے بارے میں دین اسلام کی سخت تعلیمات ہیں، اور اس کی ممانعت انسانی معاشرت کی فلاح و بہبود کے لئے ہے۔

 


سود کھانا یا سود لینا ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی شخص قرض دینے کے بدلے میں اصل رقم کے علاوہ اضافی رقم وصول کرتا ہے۔ یہ اضافی رقم ناحق شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ بغیر کسی محنت یا جدوجہد کے وصول کی جاتی ہے۔ اسلام میں یہ عمل سختی سے منع ہے کیونکہ یہ دوسرے انسانوں پر ظلم اور ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔

 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سود کی ممانعت ان الفاظ میں کی:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو۔یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ سود کو مکمل طور پر چھوڑ دیا جائے اور اللہ کی طرف سے عذاب سے بچا جائے۔

آپ ﷺ نے فرمایا "سود کے ستر درجے ہیں، ان میں سب سے کم درجے کا گناہ اس قدر ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے نکاح (یعنی زنا) کرے۔"

ہندومت میں سود کا رواج

 

ہندومت کی قدیم کتابوں میں بھی سود کا ذکر ملتا ہے۔ اگرچہ ہندو دھرم میں سود کو مکمل طور پر حرام نہیں قرار دیا گیا، لیکن اس کے حدود و قیود ضرور مقرر کی گئی ہیں۔ قدیم ہندو دھرم میں سود کا رواج تھا، اور بعض اوقات برہمن اور ویشیا طبقات سود پر قرض دیتے تھے۔ سود کی شرح مختلف مواقع پر مختلف ہوتی تھی، اور بعض حالات میں زیادہ شرح سود وصول کی جاتی تھی۔

 

مہا بھارت اور منو سمرتی جیسے مذہبی متون میں سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ اس کے محدود استعمال کی اجازت بھی ملتی ہے۔ تاہم، ہندومت میں سود کا استحصال اور اس کا زیادہ شرح پر وصول کرنا ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔

 

یہود و نصاریٰ میں سود کا رواج

 

یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی سود کا رواج قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ یہودی مذہبی کتاب "تورات" میں سود لینے کی ممانعت کا ذکر موجود ہے، لیکن بعض حالات میں یہودی آپس میں سود لینے کے حقدار تھے جبکہ غیر یہودیوں سے سود لینا جائز سمجھا جاتا تھا۔

 

"اگر تم اپنے کسی بھائی کو قرض دو، تو سود نہ لو۔

ایک اور جگہ کچھ یوں وضاحت فرمائی "آپ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے سود کھانے والےپر اور سود کھلانے والے پر اور سود کا حساب لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر۔"

عیسائیت میں بھی سود کو ایک گناہ سمجھا جاتا تھا، اور ابتدائی دور میں عیسائی مذہبی رہنما سود کے سخت خلاف تھے۔ تاہم، بعد کے ادوار میں، جب عیسائی یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام پروان چڑھنے لگا تو سود کو ایک معمولی عمل سمجھا جانے لگا۔

 

سود کی اقسام

 

سود کی دو بنیادی اقسام ہیں:

 

1.ربا النسیئہ (سود برائے تاخیر) 

یہ سود اس وقت وصول کیا جاتا ہے جب قرض لینے والا مقررہ وقت پر رقم واپس نہ کر سکے اور اسے مہلت دی جائے۔ اس مہلت کے بدلے میں اضافی رقم وصول کی جاتی ہے، جو ربا النسیئہ کہلاتی ہے۔

 

2. ربا الفضل (اضافہ کا سود)

یہ سود اس وقت وصول کیا جاتا ہے جب کسی جنس کے تبادلے میں اضافی مقدار لی جائے۔ جیسے کہ ایک ہی قسم کی چیز کے بدلے میں اضافی مقدار مانگنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

 

"سونا سونے کے بدلے میں، چاندی چاندی کے بدلے میں، گندم گندم کے بدلے میں، جو جو کے بدلے میں، کھجور کھجور کے بدلے میں، اور نمک نمک کے بدلے میں برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہو، اگر ان چیزوں میں اضافہ ہوا تو یہ سود ہے۔

 

سود کے بارے میں وعید

 

اسلام میں سود کو ایک انتہائی بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کو اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

 

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر جس کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اور جو پھر بھی یہی کرتا رہا تو وہی لوگ جہنمی ہیں۔

 

نبی کریم ﷺ نے سود کے بارے میں سخت وعید سنائی ہے:"رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود دینے والے، اس کے گواہوں اور اسے لکھنے والے پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ سود کے لین دین میں شامل تمام افراد برابر کے گناہگار ہیں، چاہے وہ سود لینے والا ہو، دینے والا ہو یا اس کے گواہ ہوں۔

 

سودی لین دین سے کیسے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے؟

 

سودی نظام سے چھٹکارا پانا ایک مشکل کام ہے، خاص طور پر جب یہمعاشرت میں پھیل چکا ہو، لیکن اسلام نے اس کے لئے واضح رہنما اصول دیے ہیں جن پر عمل کر کے ہم اس برائی سے بچ سکتے ہیں:

 

اللہ پر توکل اور رزق حلال کا انتخاب

سود کے بغیر زندگی گزارنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اللہ پر توکل کرنا چاہئے اور حلال رزق کو ترجیح دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے حلال ذرائع سے روزی کا وعدہ کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جو شخص حلال طریقے سے روزی کمائے اور اسے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرے، تو وہ شخص قیامت کے دن کامیاب ہوگا۔"

 

سودی بینکنگ سے اجتناب:

مسلمانوں کو سودی بینکنگ سے اجتناب کرنا چاہئے اور اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا چاہئے۔ اسلامی بینکنگ میں شراکت داری، مضاربہ اور مشارکہ جیسے اصولوں پر مبنی لین دین کیا جاتا ہے جو سود سے پاک ہوتا ہے۔

 

سود کے خلاف شعور بیدار کرنا

معاشرت میں سود کے خلاف شعور بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو سود کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنا چاہئے اور انہیں سود سے بچنے کی ترغیب دینی چاہئے۔

 

سودی قرضوں سے بچنے کے لئے مناسب منصوبہ بندی

اکثر لوگ قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور سودی قرضے ان کی مشکلات کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ سودی قرضوں سے بچنے کے لئے ہمیں مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔

 

اسلامی فلاحی اداروں کا قیام

اسلامی معاشرت میں فلاحی اداروں کا قیام ایک اہم ضرورت ہے جو محتاجوں اور ضرورت مندوں کو بغیر سود کے قرض فراہم کر سکیں۔ اس طرح محتاج افراد کو سودی قرضوں کی طرف جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

 

سود اسلام میں ایک سنگین گناہ ہے اور اس سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ سود نہ صرف اللہ کے عذاب کا باعث بنتا ہے بلکہ معاشرتی اور معاشی تباہی کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سودی نظام سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ سود سے پاک معیشت اور حلال ذرائع آمدنی کی طرف رجوع کرنا ہی ہمیں سود کے عذاب سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو