google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 4- بدگمانی کرنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 4 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 4- بدگمانی کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                             4- بدگمانی کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں میں سے پہلا حقارت سے لوگوں پرہنسنا، دوسرا گناہ دھوکے دینا، تیسرا گناہ  چغلی کرنا اور چوتھا گناہ بدگمانی کرنا ہے ہے۔بدگمانی ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان بغیر کسی واضح ثبوت یا دلیل کے دوسروں کے بارے میں منفی خیالات یا شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ خیالات اور شبہات عام طور پر دوسروں کی نیت، کردار، یا عمل پر مبنی ہوتے ہیں، اور اکثر اوقات بغیر کسی حقیقت کے ان خیالات کو سچ سمجھ لیا جاتا ہے۔ بدگمانی اسلام میں سختی سے منع کی گئی ہے کیونکہ یہ معاشرتی تعلقات کو بگاڑنے اور فتنے کا سبب بنتی ہے۔


 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: "اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہیں، اور تجسس نہ کرو، اور نہ ہی تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔"

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس میں گناہ کی طرف مائل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

 

زمانہ جاہلیت میں لوگ کیسے بدگمانی کیا کرتے تھے؟

 

زمانہ جاہلیت، یعنی اسلام سے پہلے کا دور، عرب معاشرتی و ثقافتی طور پر بہت سے منفی روایات اور عادات سے بھرا ہوا تھا۔ اس دور میں بدگمانی عام تھی، اور لوگ بغیر کسی ثبوت کے دوسروں کے بارے میں منفی خیالات قائم کر لیتے تھے۔ مثال کے طور پر، قبیلوں کے درمیان دشمنی اور حسد کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے اور بدگمانی پیدا کرنے کا رجحان تھا۔

 

بدگمانی کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور اس پر بنیاد رکھتے ہوئے دوسروں کے خلاف رائے قائم کر لیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ معاشرے میں بغض، کینہ اور دشمنی پروان چڑھتی، جس سے معاشرتی انتشار بڑھتا۔

 

 امتِ مسلمہ بدگمانی کے دلدل میں کیسے پھنس چکی ہے؟

 

آج کے دور میں امتِ مسلمہ بھی بدگمانی کے مسئلے میں مبتلا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عدم اعتماد اور معاشرتی عدم استحکام ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں بغیر تصدیق کے معلومات پھیلانا اور دوسروں کے بارے میں منفی خیالات قائم کرنا معمول بن چکا ہے۔

 

بدگمانی کی وجہ سے معاشرتی تعلقات میں بدگمانی اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض اوقات مذہبی، سیاسی، یا سماجی اختلافات کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں، جس سے امتِ مسلمہ کے اتحاد اور بھائی چارے کو نقصان پہنچتا ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا "گمان سے بچو، کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔"

یہ حدیث ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ بدگمانی کے ذریعے ہم سچائی سے دور ہو جاتے ہیں اور جھوٹ پر مبنی خیالات کو فروغ دیتے ہیں۔

 

بدگمان انسان اللہ سے دور کیوں ہو جاتا ہے؟

 

بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے۔ جب انسان بدگمانی کرتا ہے تو اس کا دل دوسروں کے خلاف بغض اور کینہ سے بھر جاتا ہے، جس سے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے۔

 

بدگمانی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اللہ کی رحمت اورمغفرت سے دور کر دیتا ہے۔ جب انسان دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرتا ہے تو وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے، جو کہ ایک قسم کا غرور اور تکبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تکبر اور غرور رکھنے والا شخص اللہ کی قربت حاصل نہیں کر سکتا۔

ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا۔" اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ بدگمانی، جو کہ غرور اور تکبر کی ایک شکل ہے، انسان کو جنت سے محروم کر سکتی ہے۔

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹ ہوتی ہیں۔ لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو بلکہ سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔"

یاد رہے کہ بدگمانی اور بدزبانی دو ایسے عیب ہیں جو انسان کے ہرکمال کو زوال میں بدل دیتے ہیں۔ انسان عرش سے فرش پر آگرتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں تو کردار کشی ہوتی ہے جبکہ اللہ رب العزت کے ہاں بھی گناہ کبیرہ لکھا جاتا ہے۔یقنا دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا بہترین عبادت ہے، بدگمانی کا شکار انسان کبھی بھی دوسروں میں اچھائی تلاش نہیں کر پاتا۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا " انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے سرزد ہوتی ہیں

ہم بدگمانی سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

 

بدگمانی سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ اور رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے چند اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

 

حسنِ ظن رکھنا: دوسروں کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان رکھیں اور ان کے افعال کی اچھے پہلو سے تشریح کریں۔ حسنِ ظن رکھنے سے معاشرتی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔

تحقیق کرنا: جب بھی کوئی منفی بات سنیں، اس کی تصدیق اور تحقیق کریں۔ بغیر تحقیق کے کسی پر الزام لگانا اور بدگمانی کرنا اسلام میں منع ہے۔

دل کو صاف رکھنا: دوسروں کے بارے میں دل میں بغض اور کینہ رکھنے سے بچیں۔ دل کی صفائی اور نیک نیتی سے بدگمانی ختم ہو سکتی ہے۔

دعا کرنا: اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں کہ وہ آپ کو بدگمانی سے محفوظ رکھے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی بدگمانی سے بچنے کے لئے دعائیں کی ہیں۔

ذکر و عبادت: اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول رہنے سے دل کی صفائی اور سکون حاصل ہوتا ہے، جس سے بدگمانی کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

 

خلاصہ یہ کہ بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جو انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کر دیتا ہے اور معاشرتی تعلقات کو بگاڑتا ہے۔ اس گناہ سے بچنے کے لئے ہمیں حسنِ ظن، تحقیق، دل کی صفائی، دعاء اور ذکر و عبادت کو اپنا معمول بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بدگمانی کے گناہ سے محفوظ رکھے اور ہمیں حسنِ ظن رکھنے والا بنائے۔ آمین۔


مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو