کن لوگوں کے دلوں میں لالچ اور کنجوسی بڑھتی چلی جائے گی؟
محترم قارئین کرام!
جب دنیا فانی ہے دنیا کی ہر ایک چیز نے فنا ہونا ہے تو پھر یہ اکڑ، غرور اور گھمنڈ
کیسا؟ ایک نہ ایک دن سب کچھ ختم ہونا ہے اور باقی رہنے والی ہے تو صرف اور
صرف "اللہ رب العزت کی ذات اقدس"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج کا
انسان حقیقتا ایک نفسیاتی چکر میں جی رہا ہے جیسے زندگی کا مقصد صرف اور صرف
روپیہ پیسہ ہی رہ گیا ہے باقی رشتے ناطے، ذمہ داریاں و معمولات سب کو پیسے
کی نظر میں پرکھا اور تولہ جا رہا ہے۔
ارشاد ربانی " جن
لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا کیا ہےاور لوگ ان میں بخل کرتے ہیں، جتنی
بھی نعمتیں اللہ رب العزت نے اپنے فضل سے عطا کیں ہیں وہ لوگ ان
نعمتوں کو پا کر بھی بخل کرتے ہیں، اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ان کے حق
میں بہتر ہے ہرگز ایسا نہیں بلکہ ان کے حق میں انتہائی بُر ا ہے۔ اور مزید
فرمایا" جن چیزوں کولے یہ اتنا غرور، گھمنڈ اور اکڑپن ہے اور سوچتا ہے کہ
اپنی محنت سے کمایا ہے اور خرچ کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں اللہ فرماتے ہیں
کہ یہ سار ا کا سارا مال قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے
گا اور اسی مال سے ان کی پیشانی، پہلوؤں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ
یہ وہی مال ہے جو تم کماتے تھے اور جمع کرتے تھے۔
![]() |
کن لوگوں کے دلوں میں لالچ اور کنجوسی بڑھتی چلی جائے گی؟ |
بخل کرم کی ضد ہے، بخل وہ
ہے جو نعمتیں اللہ نے اپنے بندے کو دی ہیں اور جہاں جہاں خرچ کرنے کا حکم
آیا ہے بندہ ان جگہوں پر خرچ نہ کرے اور جہاں خرچ کرنے سے منع کیا وہاں زور
وشور سے خرچ کرتا ہے اسی کو اسراف کہتے ہیں، عام طور پر بخل کو تین
حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی مال خرچ کرنے کے تین مقامات ہیں اگر وہ وہاں خرچ
نہیں کرتا تو بخیل کہلاتا ہے۔
٭
اگر اللہ رب العزت نے نعمتیں عطا کیں تو صاحب ِ استطاعت پر زکوۃ
فرض ہے ادا نہ کرنے پر بخیل ہوتا ہے
٭
اگر اللہ رب العزت نے نعمتیں عطا کیں اور صاحبِ استطاعت پر حج فرض ہے
ادا نہ کرنے پر بخیل ہوتا ہے۔
٭
اسی طرح صدقہ فطر، خیرات، اہل وعیال پر خرچ کرنا، قربانی کرنا، پڑوسیوں پر
خرچ کرنا، مہمان نوازی کرنا، دوستوں احباب پر خرچ کرنا واجب ہے نہ خرچ کرنے
پر بخیل کہلاتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا " ہر
روز فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والوں کو
اچھا بدل عطافرما اور نہ خرچ کرنے والوں کا مال ضائع فرما"۔ ایک جگہ ارشاد
فرمایا "نیکی کے کاموں میں خرچ کیا جائے تو بدل بھی
بہتر ہوتا ہے"۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا" مسلمانوں میں دو خصلیتں اکٹھی
نہیں ہو سکتی بخل اور بد خلقی"
دوسرے مقام آپ ﷺ نے فرمایا " دھوکہ
دینے والا اور احسان جتلانے والا اور بخیل لوگ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے"۔
قرب قیامت کی نشانی ہے
کہ لوگوں میں ایسی نفسیاتی بیماریاں جنم لیں گےجواسلامی معاشرے کو
پارہ پارہ کردیں گی۔ انھی میں سے ایک حد سے بڑھا ہوا حرص بھی ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ "قیامت
کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حرص اور لالچ میں بہت اضافہ ہو جائے گا"۔
ایک اور روایت میں ہے رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا "جیسے جیسے قیامت آتی جائے گی معاملہ سخت سے
سخت ہوتا چلا جائے گا اور لوگوں کے بخل اور حرص میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔"
آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے:
" زمانہ قریب تر ہو جائے گا، عمل کم ہو جائے گا، بخل و
حرص کا دور دورہ ہو گا، اور قتل وغارت گری میں بہت اضافہ ہو جائے گا"۔
حدیث میں "شُحَ"
کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی ہیں کسی شخص میں بخل اور لالچ کا ایک ساتھ جمع
ہو جانا، ہر وہ چیز جو انسان کو بھلائی کے کاموں میں مال خرچ کرنے اور نیکی یا
اطاعت الہی کا کام کرنے سے منع کرے وہ "شُحَ" میں داخل ہے۔ ( آج افسوس
سے تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ رحمن کے بندوں پر خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ،
پیسہ، توجہ نہیں ہے ایسے اچھے کاموں سے بہت جلد اکتاہٹ ، بوریت کا ، بہانہ بازی سے
کام لے کر پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ شیطان کو خوش کرنے کے لئے
ہمارے پاس فرصت بھی ہے، مال بھی ہے اور توجہ بھی ہے، بزرگوں کے مزاروں پر
چڑھاوے چڑھانا، قبروں کو سجدہ گاہ بنانا،عرس ناچ گانے، شادی بیاہ کی رسمیں، غرض یہ
کہ جہاں خرچ کرنے کی ممانعت ہے ہم سب سے زیادہ خرچ بھی انھی معمولات پر کرتے ہیں)
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے کہ جب
دیگر اقوام تمہیں مٹانے کے لیے (مل کر سازشیں کریں گی اور) ایک دوسرے کو اس طرح
بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے (لذیذ) کھانے کی طرف ایک دوسرے کو
بلاتے ہیں۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلتِ تعداد کی وجہ سے ہمارا
یہ حال ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو
گے البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل
سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دے گا۔ کسی نے
عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا سے محبت اور
موت سے نفرت"۔
اللہ کے حبیب جناب محمد مصطفی ٰ
ﷺ کا ارشاد ہے " لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دیندار آدمی کا دین سلامت نہیں رہے گا سوائے اُس شخص کے جو اپنا دین بچانے کے لیے کسی پہاڑی کی چوٹی سے
دوسری چوٹی پر یا ایک سرنگ سے دوسری سرنگ میں اپنا دین اپنے ساتھ لے کر نہ بھاگتا
پھرے۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اس وقت معیشت صرف اُنہی ذرائع سے حاصل ہو گی جن سے
اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اُس وقت آدمی کی ہلاکت کی وجہ
اُس کی بیوی یا اُس کی اولاد ہو گی اور اگر کسی کی بیوی اور اولاد نہ ہوئی تو اس
کے والدین اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ اگر اس کے والدین نہ ہوئے تو اس کی ہلاکت
اس کے قریبی رشتہ داروں یا ہمسایوں کے ہاتھوں ہو گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں کر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اُسے تنگی معاش
(پیسے کی کمی) کا طعنہ دیں گے جس کی وجہ سے وہ (دولت سمیٹنے کے لیے) اپنے آپ کو
ایسے اُمور میں ملوث کر لے گا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔
دوستو! یہ ساری احادیث ،
تعلیمات و احکامات ، نصیحتیں ہمارے لئے ہیں ، ہم اتنے غافل ہوتے جارہے
ہیں کہ اچھائی اور برائی میں فرق ہی ختم ہوتا جا رہا ہے، اس لئے شیطان کا پہلاحملہ
انسان کے حواس پر ہوتا ہے انسان سوچنا چاہے تب بھی نہیں سوچ پاتا اس کے بعد
گمراہی کا راستہ اپناتا چلاجاتا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا ہی سچی خوشی ہے بجائے
قبر پر ستی کرنے یا غلط رسومات کو پروان چڑھانے میں ، ہمارے معاشرے میں یہ
نشانی بھی اپنے عروج پر ہے۔ لوگوں کو اپنے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آرہا ۔۔۔
اللہ پاک ہم سب کو معاف کرے اور
ہم سب کو محفوظ رکھے۔۔۔ آمین
بے شک۔ دورے حاضر کی عین عکاسی نمایا ہے۔
جواب دیںحذف کریں