بدعات اور گمراہی کا عروج آخری زمانے کے لوگوں کا گزرے بزرگوں پر لعنت بھیجنا
اسلام کی تعلیمات میں قیامت کے قریب آنے والے زمانے کے بارے
میں متعدد پیش گوئیاں کی گئی ہیں، جن میں سے ایک اہم پیشگوئی یہ ہے کہ امت محمدیہ
کے آخری لوگ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں پر لعنت بھیجیں گے۔ یہ پیشگوئی ایک خوفناک حقیقت
کی نشاندہی کرتی ہے کہ امت کے آخری دور میں بدعات، گمراہی، جہالت، اور دیگر برائیاں
عام ہوں گی۔
لعنت کرنا یا لعنت بھیجنا اسلام میں ایک بدترین عمل سمجھا
جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق، کسی مسلمان کو لعنت بھیجنا نہایت سنگین گناہ ہے
اور اس سے انسان کے اخلاقی معیار کا پتا چلتا ہے۔ لعنت کرنا دراصل اللہ کی رحمت سے
کسی کو محروم کرنے کی بددعا ہے، جو کہ کسی بھی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ نبی
اکرم ﷺ نے بھی اپنے اُمتیوں کو لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسے ایک ناپسندیدہ
عمل قرار دیا ہے۔ لہٰذا، مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور دوسروں
کے لیے صرف دعا اور خیر کی باتیں کرے۔ اس آرٹیکل میں ہم ان عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالیں
گے جو کہ اس پیشگوئی کے پیچھے کارفرما ہیں۔
1. بدعات اور گمراہی کا پھیلاؤ
آخری زمانے میں بدعات اور گمراہی بہت زیادہ ہو جائیں گی۔
بدعت سے مراد دین میں ایسی نئی باتوں کا اضافہ ہے جو شریعت کی اصل روح کے خلاف
ہوں۔ یہ اضافی اعمال یا عقائد دین کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں اور لوگوں کو سچائی
سے دور لے جاتے ہیں۔
اس دور میں لوگ دین کی اصل تعلیمات کو چھوڑ کر نئی رسومات
اور طریقے اپنانا شروع کر دیں گے جو کہ دین کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ
بدعتیں دین کی شکل کو بگاڑ دیں گی اور لوگ اپنی مرضی کے مطابق دین کو بدلتے جائیں
گے۔ ان حالات میں امت کے آخری لوگ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں پر لعنت بھیجیں گے کیونکہ
وہ سمجھیں گے کہ ان کے بزرگوں نے دین کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا اور ان کی گمراہی
کا سبب بنے۔بعد میں آنے والے پہلے لوگوں سے شدید نفرت کریں گے۔ بعض لوگ صحابہ کرام
کی جو مدح وثنا بیان فرمائی ہے اس سے بالکل غافل ہو جائیں گے یا تغافل ، سستی اور کاہلی سے کام لیں گے۔ یہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والے بعض لوگ امت کے
پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے۔
جیسا کہ آپ ﷺ نے
فرمایا " قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک امت کے آخری لوگ پہلوں
پر لعنت نہ کریں"۔ یہاں امت سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ کی امت ہے جیسا کہ ظاہر
ہے۔۔ باقی اللہ رب العزت کی ذات اقدس بہتر جانتی ہے۔
2. صحابہ
کرام کی فضیلت اور تعلیمات کا بھولا دینا
آخری زمانے میں لوگ صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کی تعلیمات
کو بھول جائیں گے۔ صحابہ کرام، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں دین سیکھا اور اس
پر عمل کیا، اسلام کی پہلی نسل تھے۔ ان کی زندگیوں میں دین کی روشن مثالیں موجود ہیں
جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
لیکن آخری زمانے میں لوگ ان کے مقام و مرتبے کو بھول جائیں
گے اور ان کی تعلیمات کو نظرانداز کریں گے۔ اس غفلت کی وجہ سے امت کے آخری لوگ
اپنے بزرگوں پر لعنت کریں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار
وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان تعلیمات کو پھیلانے میں ناکامی کی۔
3. درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہونا
علم دین اسلام کی بنیاد ہے اور مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک
اہم مقام رکھتا ہے۔ لیکن آخری زمانے میں علم کی قدر و قیمت گھٹ جائے گی اور درس و
تدریس کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔ علم کی روشنی ماند پڑ جائے گی اور لوگ جہالت کے
اندھیروں میں گم ہو جائیں گے۔
اس دور میں علماء کی عزت اور مقام کم ہو جائے گا اور دینی
مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان ختم ہو جائے گا۔ اس علمی زوال کے نتیجے میں
لوگ دین کی صحیح سمجھ بوجھ سے محروم ہو جائیں گے اور گمراہی کا شکار ہو جائیں گے۔
ایسے حالات میں لوگ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے اور ان پر
لعنت بھیجیں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ان کی بدحالی کی وجہ ان کے اسلاف کی غلطیاں
ہیں۔
4. اسلام اور قرآن کا اٹھا لیا جانا
اسلام اور قرآن امت محمدیہ کے لئے ہدایت اور روشنی کا ذریعہ
ہیں۔ لیکن قیامت کے قریب ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام اور قرآن کو اٹھا لیا جائے
گا۔ قرآن، جو کہ ہدایت کا سرچشمہ ہے، لوگوں کی زندگیوں سے نکل جائے گا اور لوگ اس
کی تعلیمات کو بھول جائیں گے۔
یہ وقت اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ دنیا اپنے خاتمے کے قریب
ہے۔ لوگ قرآن کو صرف رسومات میں پڑھنے کی حد تک محدود کر دیں گے اور اس کی اصل ہدایات
کو نظرانداز کریں گے۔ جب قرآن اور اسلام کو اٹھا لیا جائے گا، تو لوگوں کے دلوں میں
دین کی روشنی ماند پڑ جائے گی اور وہ گمراہی کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ حالات امت کے
آخری لوگوں کو گزرے ہوئے لوگوں پر لعنت بھیجنے پر اکسائیں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے
کہ ان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار ان کے اسلاف ہیں۔
5. ایک سجدہ دنیا کے تمام خزانوں سے قیمتی ہوگا
آخری زمانے میں دین کی اہمیت اس قدر کم ہو جائے گی کہ لوگ
دنیاوی مال و دولت کو دین پر فوقیت دیں گے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ایک سجدہ دنیا کے تمام خزانوں سے قیمتی ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں لوگ
دین کی حقیقی قدر کو بھول جائیں گے اور جب قیامت کے آثار نمایاں ہوں گے تو انہیں
احساس ہوگا کہ دین کی اصل اہمیت کیا تھی۔
جب لوگ دنیا کی لذتوں میں مگن ہوں گے اور دین کی طرف سے
غافل ہوں گے، تو اس وقت دین پر عمل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ لیکن جو لوگ اس دور
میں ایک سجدہ بھی کریں گے، وہ دنیا کے تمام خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوگا۔ اس
صورتحال میں امت کے آخری لوگ اپنے گزرے ہوئے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ
انہوں نے انہیں دین کی اصل حقیقت سے دور کر دیا۔
6. سرعام جھوٹ اور بدکاری کی جائے گی
آخری زمانے میں برائیاں عام ہو جائیں گی اور لوگ سرعام جھوٹ
اور بدکاری کریں گے۔ جھوٹ بولنا اور بدکاری کرنا ایک عام معمول بن جائے گا اور
لوگوں کے دلوں سے خوف خدا نکل جائے گا۔ ایسے حالات میں سچائی کی قدر کم ہو جائے گی
اور لوگ برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔
لوگ اپنی خواہشات کے غلام بن جائیں گے اور ان کی زندگیوں میں
دینی اصولوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ اس بدترین حالت میں امت کے آخری لوگ اپنے
گزرے ہوئے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے کہ ان کی تربیت اور تعلیمات نے انہیں
اس برائی کے راستے پر ڈال دیا۔
7. مرد کم اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی
آخری زمانے میں ایک اور نشانی یہ ہوگی کہ مردوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگوں،
فتنوں، اور بیماریوں کے باعث مردوں کی اموات زیادہ ہوں گی جبکہ عورتوں کی تعداد
بڑھ جائے گی۔
یہ ایک علامت ہوگی کہ دنیا میں توازن بگڑ رہا ہے اور قیامت
کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ جب مرد کم ہوں گے اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی، تو
سماجی ڈھانچہ بھی متاثر ہوگا اور برائیوں کا پھیلاؤ مزید بڑھے گا۔ اس صورتحال میں
لوگ اپنے گزرے ہوئے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ انہوں نے انہیں ایسی حالت میں
پہنچا دیا۔
8. اچانک اموات کی کثرت ہو جائے گی
قیامت کے قریب ایک اور نشانی یہ ہوگی کہ اچانک اموات کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ بغیر کسی بیماری یا وجہ کے اچانک مرنے لگیں گے۔ اس کی وجہ
جنگیں، فتنہ و فساد، اور قدرتی آفات ہو سکتی ہیں۔
جب اچانک اموات کی کثرت ہوگی، تو لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے
اور انہیں یہ احساس ہوگا کہ دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس وقت لوگ اپنے
گزرے ہوئے بزرگوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ ان کی غلطیوں کی وجہ سے انہیں اس
عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
9. قرب قیامت زمانہ قریب ہو جائے گا
قیامت کے قریب ایک اور نشانی یہ ہوگی کہ زمانہ قریب ہو جائے
گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کی رفتار تیز ہو جائے گی اور دن، ہفتے، مہینے اور سال
بہت جلد گزر جائیں گے۔ لوگ یہ محسوس کریں گے کہ وقت کا دورانیہ کم ہو گیا ہے اور
وقت بہت جلدی گزر رہا ہے۔
اس صورتحال میں لوگ اپنی زندگیوں میں سکون اور آرام محسوس
نہیں کریں گے اور انہیں یہ احساس ہوگا کہ دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس
وقت لوگ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ ان کی وجہ سے وقت کی یہ
تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
10. بے وقوف، جاہل حکمران ہوں گے
آخری زمانے میں دنیا پر بے وقوف اور جاہل حکمران مسلط ہوں گے۔ یہ حکمران دین کی سمجھ بوجھ سے عاری ہوں گے اور دنیاوی معاملات کو اپنی مرضی
کے مطابق چلائیں گے۔ ان کی غلط فیصلے اور بے اصولی دنیا میں افراتفری کا باعث بنے
گی۔
ایسے حکمرانوں کے دور میں فتنہ و فساد، ناانصافی اور ظلم
عام ہوگا۔ لوگ ان حکمرانوں کی بے وقوفیوں کا شکار ہوں گے اور ان کی حکمرانی کے
نتائج بھگتیں گے۔ اس وقت لوگ اپنے گزرے ہوئے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ
انہوں نے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کیا یا انہیں تربیت دی۔
نتیجہ
امت محمدیہ کے آخری زمانے میں برائیوں، بدعات، جہالت اور فتنوں کا پھیلاؤ ایک بڑی نشانی ہے کہ دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔