پہاڑوں سے بلند مکہ کی عمارات آخری زمانے کی تبدیلیوں کا اشارہ
اسلامی
تعلیمات میں قیامت کے قریب آنے والی نشانیوں کا ذکر بہت وضاحت سے کیا گیا ہے۔ ان
نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی مکہ مکرمہ میں بلند و بالا عمارات کی تعمیر ہے۔ اس
موضوع پر غور کرنے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے زمانے کے بدلتے ہوئے
حالات اور لوگوں کی ترجیحات دین کی بجائے دنیا کی طرف مائل ہو جائیں گی۔ اس آرٹیکل
میں ہم اس نشانی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالیں
گے۔
1. احادیث میں بلند عمارات کی پیشگوئی
حضرت
محمد ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بتاتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بلند و بالا
عمارات کی تعمیر کی نشانیوں کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عرب کے چرواہے جو کبھی
بکریاں چرایا کرتے تھے، وہی لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں فخر محسوس کریں گے۔
یہ
پیشگوئیاں ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ دنیا کے معاملات میں مگن ہونے کی
وجہ سے لوگ دین کو بھول جائیں گے اور دنیاوی آسائشوں کو ترجیح دیں گے۔ بلند عمارتیں
صرف تعمیراتی ترقی کا مظہر نہیں ہوں گی بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہوں گی کہ
لوگوں کے دلوں میں دنیا کی محبت بڑھ گئی ہے اور آخرت کی فکر کم ہو گئی ہے۔
یوں
تو عہد نبوی ﷺ میں مکہ کی آبادی بہت کم اور مکانات قلیل تعداد میں تھے۔ آپ ﷺ کی پیشین
گوئی کے مطابق مکہ کی عمارات اس کے پہاڑوں سے بھی زیادہ بلند ہو جائیں گی۔
2. موجودہ دور کی حقیقت
اگر
ہم آج کے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں، تو ہمیں احادیث کی پیشگوئیوں
کی سچائی کا ادراک ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں موجودہ بلند و بالا عمارتیں، خاص طور پر
مکہ کلاک ٹاور اور اس کے ارد گرد کی دیگر عمارتیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ
وہ وقت آچکا ہے جس کا ذکر احادیث میں کیا گیا تھا۔
ایک
روایت کے مطابق امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی
سواری کی لگام تھامے ہوئے تھا کہ انھوں نے کہا: اس وقت تم لوگوں کا کیا حال ہو گا
جب تم بیت اللہ کو گرادو گے اور اس کا ایک پتھر بھی دوسرے کے اوپر نہیں رہنے دو
گے۔ لوگوں نے سوال کیا: کیا ہم اس وقت اسلام پر قائم ہوں گے؟ انھوں نے فرمایا: جی
ہاں! آپ لوگ اس وقت اسلام پر ہی ہوں گے۔ سوال کرنے والے نے پوچھا: پھر اس کے بعد
کیا ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن عمرو کہنے لگے:
پھر بیت اللہ کی تعمیر پہلے سے زیادہ احسن انداز میں کی جائے گی۔ جب آپ مکہ کو
دیکھیں کہ اس کے پہاڑوں اور زمین کے نیچے سرنگیں کھود دی جائیں اور زیر زمین پانی
کے پائپ بچھا دئیے جائیں اور مکہ کی عمارتیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر نکل جائیں۔
اس وقت سمجھ لینا کہ معاملہ قریب آپہنچا ہے۔"
اس
حدیث میں بعجت کظائم سے مراد وہ سرنگیں ہیں جو پہاڑوں کو کھود کر
مکہ شہر میں کثیر تعداد میں بنائی گئی ہیں
اور زمین کے نیچے بڑے بڑے پائپ آب زم زم کے لئے بچھائے گئے ہیں۔
یہ
عمارتیں جہاں ایک طرف حاجیوں کے لئے سہولتیں فراہم کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف مقدس
مقامات کے قدرتی حسن کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان عمارتوں کی تعمیر میں
استعمال ہونے والے وسائل اور زمین کے استعمال نے بھی ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب
کیے ہیں۔
3. بلند عمارات اور دین سے دوری
بلند
و بالا عمارتوں کی تعمیر صرف مادی ترقی کا مظہر نہیں ہے، بلکہ یہ دین سے دوری کی
بھی علامت ہے۔ جب لوگ دین کی بجائے دنیاوی دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں،
تو وہ اپنے اصل مقصد یعنی اللہ کی عبادت اور آخرت کی فکر کو بھول جاتے ہیں۔ مکہ
مکرمہ میں بلند عمارات کی تعمیر اسی ذہنیت کا عکس ہے۔
یہ
عمارتیں مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ اپنے دین کو نہ بھولیں
اور دنیا کی عارضی آسائشوں میں مگن نہ ہوں۔ یہ نشانی اس بات کی بھی علامت ہے کہ قیامت
قریب ہے اور ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔
4. قرب قیامت کی دیگر نشانیاں
بلند
و بالا عمارتوں کی تعمیر قرب قیامت کی ایک نشانی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی کئی اور
نشانیاں ہیں جو ہمیں قیامت کے قریب ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم
نشانی عرب دنیا میں دوبارہ بت پرستی کا رواج ہے۔ جب لوگ دین کو چھوڑ کر دنیاوی چیزوں
کی طرف مائل ہوتے ہیں، تو وہ شیطان کے فریب میں آکر شرک اور بت پرستی کی طرف لوٹ
جاتے ہیں۔
اسی
طرح، قرب قیامت کے وقت مکہ اور مدینہ جیسے مقدس شہروں کی حالت بھی بدل جائے گی۔
احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ان شہروں میں ایمان کی روشنی ماند پڑ جائے گی اور وہاں
کے لوگ دین سے دور ہو جائیں گے۔
5. مکہ مکرمہ میں بلند عمارات کے اثرات
مکہ
مکرمہ میں بلند عمارات کی تعمیر نے نہ صرف مقدس مقامات کے قدرتی حسن کو متاثر کیا
ہے، بلکہ اس کے دیگر کئی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے لئے بڑے
پیمانے پر زمینوں کو مسمار کیا گیا، جس سے مکہ کے تاریخی مقامات اور قدرتی ماحول
کو نقصان پہنچا۔
اس
کے علاوہ، ان عمارتوں کی وجہ سے مکہ میں جائیدادوں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھ گئی
ہیں، جس کی وجہ سے عام لوگ وہاں رہائش اختیار کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ ان
تمام حالات کو دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ قیامت کی نشانیوں کا ظہور ہو چکا
ہے اور ہمیں اپنی زندگیوں کو دین کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
6. مکہ کی تعمیرات اور مسلمانوں کی ذمہ داری
مکہ
مکرمہ میں بلند عمارات کی تعمیرات کے باوجود مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ
وہ اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ بلند عمارات اور دنیاوی ترقی کے باوجود، ہمیں
اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم قیامت کے دن کامیاب ہو سکیں۔
مسلمانوں
کو چاہیے کہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حرمت کو برقرار رکھیں اور وہاں کے
مقدس مقامات کی عزت کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات
کو بھی اپنی زندگیوں میں شامل کریں تاکہ وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔
مکہ
مکرمہ میں بلند و بالا عمارات کی تعمیر قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی
ہے۔ یہ نشانی ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ دنیاوی ترقی کے باوجود ہمیں
اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور دنیا کی عارضی آسائشوں میں مگن نہیں
ہونا چاہیے۔ مکہ مکرمہ میں بلند عمارات کی تعمیرات نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا
ہے کہ قیامت قریب ہے اور ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ
وہ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات کو بھی اپنی زندگیوں میں شامل کریں تاکہ
وہ قیامت کے دن کامیاب ہو سکیں۔
مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔