غفلت
میں چھپے 50 گناہ
30-
لعنت کرنا
غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں تیسواں گناہ لعنت کرنا ہے ۔ اگر
آپ مزید آرٹیکل پڑھنا چائیں تو نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
"لعنت" کا مطلب کسی پر اللہ کی رحمت سے محرومی کی
دعا کرنا ہے۔ یہ ایک بددعا ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ اور گناہ کے طور پر سمجھی
جاتی ہے۔ قرآن اور حدیث میں لعنت کرنے کو نہایت سنجیدگی سے لیا گیا ہے، اور اس کا
مطلب کسی شخص کو اللہ کے غضب اور سزا کے لائق قرار دینا ہے۔
اسلام میں لعنت کرنے کی سختی سے ممانعت ہے، سوائے ان لوگوں
کے جو کھلے عام گناہ کرتے ہیں یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے لعنت کا ذکر ان لوگوں کے لیے کیا ہے جو اللہ کی آیات
کا انکار کرتے ہیں، منافقین، اور وہ لوگ جو اللہ کے احکامات کو جان بوجھ کر
جھٹلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"یقیناً
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں
لعنت کی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔"
ہمارے معاشرے میں کئی بار عورتوں کو اپنے بچوں، خاوند یا
رشتہ داروں پر لعنت ملامت کرتے سنا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک عمل ہے کیونکہ ایک ماں
کی دعا اور بددعا دونوں اللہ کی بارگاہ میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ حدیث میں بھی آیا
ہے کہ ماؤں کو اپنی اولاد کے حق میں بددعا نہیں کرنی چاہیے۔
آپ ﷺ نے فرمایا "اپنی
اولاد، مال، اور اپنے خادموں کے لیے بددعا نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وقت ہو
جب اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہو اور تمہاری بددعا قبول ہو جائے۔"
اہل عرب میں زمانہ جاہلیت میں لعنت کا تصور بہت عام تھا۔ وہ
اپنے دشمنوں، مخالفین اور یہاں تک کہ معمولی غلطیوں پر بھی ایک دوسرے کو لعنت بھیجا
کرتے تھے۔ لعنت کو ایک سزا اور انتقام کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔زمانہ جاہلیت میں
لوگوں کا خیال تھا کہ لعنت بھیجنا ایک طاقتور ذریعہ ہے جس سے دوسروں کو نقصان
پہنچایا جا سکتا ہے۔ وہ کسی کی بدبختی کی خواہش کرنے کے لیے اسے لعنت کرتے تھے،
اور اس عمل کو وہ ایک معمولی بات سمجھتے تھے۔
لعنت کا تصور مختلف مذاہب میں مختلف ہے۔ عیسائیت میں لعنت
کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور عیسائی تعلیمات میں لوگوں کو بددعا یا
لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہندومت اور دیگر مذاہب میں بھی لعنت کو منفی
اور ناپسندیدہ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشین ممالک میں لعنت کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ
یہاں کی ثقافت میں غصہ، مایوسی اور ناراضگی کا اظہار زیادہ تر بددعا یا لعنت کے ذریعے
کیا جاتا ہے۔ لوگ جلدی سے ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگتے ہیں، چاہے مسئلہ کتنا ہی
معمولی کیوں نہ ہو۔
اسلام میں لعنت کرنے والوں کے لیے سخت وعید ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا:"مومن نہ تو لعنت کرنے والا ہوتا ہے،
نہ طعنہ دینے والا، نہ فحش گو اور نہ بدزبان ہوتا ہے۔"
ایک اور حدیث میں آیا ہے:"جو
شخص کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے، وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے، پھر زمین کی طرف،
اور اگر اس کا مستحق نہ ملے تو لعنت کرنے والے پر ہی واپس آ جاتی ہے۔"
ہمارے معاشرے میں اکثر لعنت کو ایک چھوٹا اور معمولی گناہ
سمجھا جاتا ہے، کیونکہ لوگوں کو اس کے اثرات اور اس کے انجام کی سنجیدگی کا اندازہ
نہیں ہوتا۔ لوگ اسے ایک غصے یا ناراضگی کا معمولی اظہار سمجھ کر کرتے ہیں، لیکن وہ
نہیں جانتے کہ یہ عمل اللہ کی ناپسندیدگی کا سبب بنتا ہے۔
لعنت کے معاشرتی اثرات بہت منفی ہیں۔ یہ انسانوں کے درمیان
نفرت، دشمنی اور اختلافات کو بڑھاوا دیتی ہے۔ ایک معاشرہ جہاں لوگ ایک دوسرے پر
لعنت کرتے ہوں، وہاں محبت، بھائی چارہ اور باہمی احترام کا فقدان ہوتا ہے۔
خاص طور پر عورتوں اور مردوں کے درمیان غصے یا جھگڑوں کے
دوران لعنت ملامت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس عادت کو ختم کرنے کے لیے دینی تعلیمات
کو پھیلانا اور اسلامی احکامات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلے، ہمیں لوگوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ زبان کا صحیح
استعمال بہت اہم ہے اور اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے
فرمایا: "اور لوگوں سے نرمی اور خوش اخلاقی سے
بات کرو"
اس گناہ سے بچنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے غصے اور جذبات
پر قابو پانا سیکھنا ہوگا۔ اسلام ہمیں صبر، برداشت اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور غصے کو پینے
والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے (اللہ کو پسند ہیں)۔" علماء کرام
اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو لعنت کے منفی اثرات سے آگاہ کریں اور انہیں
اس سے بچنے کی ترغیب دیں۔
علماء کرام کے نزدیک لعنت کرنا ایک نہایت سنگین عمل ہے جو
اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ شریعت میں لعنت بھیجنے کا حکم بہت سخت ہے کیونکہ یہ
ایک بددعا ہے جس سے کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کیا جاتا ہے۔ علماء کرام کے مطابق،
لعنت کرنا صرف ان لوگوں پر جائز ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی کھلی نافرمانی
کرتے ہیں یا اللہ کے دین کی حدود کو توڑتے ہیں، جیسے کافر، منافق، یا ظالم لوگ۔ ایک
مومن کے لیے لعنت اور بدکلامی کرنا مناسب نہیں ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ ہر مسلمان
کو چاہیے کہ اپنے الفاظ اور زبان کو قابو میں رکھے اور اپنے غصے یا جذبات کو
دوسروں پر لعنت بھیجنے کے بجائے صبر اور تحمل سے حل کرے۔
علماء کرام اور دینی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ مساجد اور دینی
اجتماعات میں ان مسائل پر بات کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ لعنت اور بدزبانی نہ
صرف ایک گناہ ہے بلکہ یہ معاشرتی تعلقات کو بھی بگاڑنے کا سبب بنتی ہے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ گھروں اور خاندانوں میں بچوں کو
شروع سے ہی زبان کے صحیح استعمال کے بارے میں تعلیم دی جائے تاکہ وہ بڑوں کی پیروی
کرتے ہوئے لعنت اور بدزبانی سے دور رہیں۔ معاشرتی سطح پر بھی اس بات کو یقینی
بنانا ہوگا کہ تعلیم اور تربیت میں اخلاقیات اور زبان کے صحیح استعمال کی تعلیم دی
جائے۔
آخر میں، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ
ہم غصے میں یا مایوسی میں لعنت کرنے کے بجائے تحمل اور بردباری کو اپنائیں۔ صبر
اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ایک مومن کی خوبی ہے اور ہمیں اسے اپنی روزمرہ زندگی کا
حصہ بنانا چاہیے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ
کریں۔
جاندار کو آگ میں
جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے
نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔