google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 35- سرکشی کرنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعرات، 19 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 35- سرکشی کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                          35-        سرکشی کرنا

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں پینتیسواں گناہ سرکشی کرناہے ۔ اگر آپ مزید آرٹیکل پڑھنا چائیں تو نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

 

سرکشی سے مراد ہے کہ انسان اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت سے انکار کر کے اس کے احکامات کی مخالفت کرے۔ یہ ایک ایسی نافرمانی ہے جو غرور اور تکبر کے ساتھ کی جاتی ہے، جہاں انسان اپنے آپ کو اللہ کے قوانین سے بالاتر سمجھتا ہے اور کسی بھی قسم کی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سرکش افراد کے بارے میں فرمایا ہے:

 


"اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ سرکشوں میں سے ہو گیا"۔

 

ابلیس کی سرکشی ایک نمایاں اور عبرت انگیز واقعہ ہے جسے قرآن مجید میں بارہا ذکر کیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کریں، تو ابلیس، جو ایک جِن تھا اور اللہ کی عبادت میں بڑا مقام رکھتا تھا، نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ابلیس کا کہنا تھا کہ وہ آدمؑ سے بہتر ہے کیونکہ اللہ نے اسے آگ سے پیدا کیا جبکہ حضرت آدمؑ کو مٹی سے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:" تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے

 

ابلیس کی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تکبر اور نافرمانی انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کر دیتی ہے۔ ابلیس کی سرکشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے احکامات کے خلاف جانا انسان یا جِن کو بڑی ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔

 

سرکشی وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں اور دنیا کی آسائشوں کو اللہ کی رضا پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے اقتدار، دولت، اور طاقت کے غرور میں اللہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ انبیاء کے دور میں بھی اکثر سرکش وہی لوگ تھے جن کے پاس دنیاوی مال و دولت اور طاقت ہوتی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

"اور ہم نے جو رسول بھیجا، اس کی قوم کے سرکش لوگوں نے کہا کہ یہ تمہاری مثل بشر ہیں، جو کچھ تم کھاتے ہو، وہی یہ کھاتے ہیں اور جو کچھ تم پیتے ہو، وہی یہ پیتے ہیں

 

دورِ جاہلیت میں سرکشی کرنے والوں کو اللہ نے دنیا میں بھی سخت سزائیں دیں۔ یہ سزائیں مختلف قوموں کو ان کے نبیوں کی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے دی گئیں۔ حضرت نوحؑ کی قوم، حضرت لوطؑ کی قوم، اور حضرت صالحؑ کی قوم اس کی مثالیں ہیں۔ ان سرکش قوموں پر مختلف آسمانی عذاب نازل ہوئے، جیسے طوفان، زلزلے، اور آسمانی بجلی۔

 

مختلف مذاہب میں سرکشی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ 

 

عیسائیت: میں سرکشی کو خدائی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور عذاب کی شکل میں سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

یہودیت: میں بھی سرکش افراد کو اللہ کے عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جیسے فرعون کی سرکشی اور اس کی تباہی۔

ہندومت: میں سرکشی کو کائنات کے اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور اسے کرم کے قانون کے تحت سزا ملتی ہے۔

 

سرکشی کی مختلف اقسام ہیں

اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنا: اللہ کے واضح احکامات کو ماننے سے انکار اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔

نبیوں کی نافرمانی کرنا: اللہ کے پیغمبروں کی ہدایت کو جھٹلانا اور ان کے پیغامات کو رد کرنا۔

انسانوں پر ظلم و ستم کرنا: کمزوروں، غریبوں اور معصوموں پر ظلم و زیادتی کرنا، جیسا کہ فرعون اور قارون نے کیا۔

شرک کرنا: اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا بھی سرکشی کی بدترین شکل ہے۔

 

قرآن میں مختلف قوموں کا ذکر ملتا ہے جنہیں ان کی سرکشی کی وجہ سے اللہ نے سخت عذاب دیا:

 

قوم نوح: حضرت نوحؑ کی قوم کو ان کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے طوفان کے ذریعے تباہ کیا گیا۔

قوم عاد: حضرت ہودؑ کی قوم عاد کو ان کی سرکشی کی وجہ سے زبردست ہوا کے طوفان سے ہلاک کیا گیا۔

قوم ثمود: حضرت صالحؑ کی قوم کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے زلزلے سے تباہ کیا گیا۔

قوم لوط: حضرت لوطؑ کی قوم کو ان کی بدکاری اور سرکشی کی وجہ سے آسمان سے برسنے والی پتھروں کی بارش سے ہلاک کیا گیا۔

 

فرعون ایک ظالم اور سرکش حکمران تھا جو اپنی طاقت کے غرور میں اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کرتا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کی دعوت کو جھٹلا کر اس نے اپنی قوم پر ظلم و ستم کیا۔ اللہ نے فرعون کو اس کی سرکشی کی سزا دی اور اسے اور اس کی فوج کو دریائے نیل میں غرق کر دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

"اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کر دیا، پھر فرعون اور اس کی فوج نے ظلم اور زیادتی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہا: میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں

 

قارون، جو حضرت موسیٰؑ کے دور کا ایک مالدار شخص تھا، اپنی دولت کے غرور میں سرکش ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی دولت کو اللہ کی عطا نہیں سمجھا بلکہ اسے اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سرکشی کی وجہ سے اسے اور اس کی دولت کو زمین میں دھسا دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

"پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھسا دیا، پھر کوئی جماعت اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد نہ کر سکی اور نہ وہ خود بچ سکنے والوں میں سے تھا

 

شداد، جو حضرت ہودؑ کے دور کا ایک بادشاہ تھا، اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار ہوا۔ اس نے جنت جیسا شہر بنانے کی کوشش کی اور اپنی طاقت پر غرور کیا۔ اللہ نے اسے اور اس کے شہرکو برباد کر دیا۔

 

اسلام میں سرکشی کو کفر اور نافرمانی کی بدترین شکل قرار دیا گیا ہے۔ سرکش انسان اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

 

"اور جب ہم نے انسان پر انعام کیا تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے

 

جنوبی ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش میں سرکشی کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں، جن میں حکومت کی نافرمانی، عوامی وسائل کی لوٹ مار، اور معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی شامل ہے۔ ان ممالک میں سرکش افراد کے خلاف قوانین تو موجود ہیں، مگر ان کا نفاذ کمزور ہے جس کی وجہ سے سرکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

 

پاکستانی معاشرے میں سرکشی کو معمولی سمجھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ لوگ دینی تعلیمات سے دور ہو چکے ہیں۔ سرکشی کو لوگ اپنی آزادی سمجھتے ہیں اور انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ معاشرتی بگاڑ، کرپشن، اور ظلم و زیادتی اس سرکشی کا نتیجہ ہیں۔

 

اس گناہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس کی اصلاح کرے اور اللہ کے احکامات کی پیروی کرے۔ سرکشی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم غرور اور تکبر سے بچیں اور اللہ کی عظمت کو پہچانیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"یقیناً اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"۔ہمیں اپنے آپ کو اللہ کے حضور جھکانا چاہئے اور اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے عاجزی اور انکساری اختیار کرنی چاہئے تاکہ ہم سرکشی کے گناہ سے محفوظ رہ سکیں۔

 

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو