google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 غفلت میں چھپے 50 گناہ 36- گانا سننا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعرات، 19 ستمبر، 2024

غفلت میں چھپے 50 گناہ 36- گانا سننا

غفلت میں چھپے 50 گناہ                                          36-        گانا سننا     

غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں چھتیسواں گناہ گانا سننا ہے ۔ اگر آپ مزید آرٹیکل پڑھنا چائیں تو نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

 

اسلامی تعلیمات میں غفلت اور گناہوں کے چھپے پہلوؤں میں سے ایک اہم اور قابل غور مسئلہ "گانا سننا" ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس عمل کی ممانعت اور اس کے اثرات پر بحث ضروری ہے کیونکہ موجودہ دور میں یہ ایک معمولی اور عام عمل بن چکا ہے۔

 


گاناسننے کو گناہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں یہ عمل اسلامی معاشرت کا حصہ نہیں تھا۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم تھی جو بعد میں مسلم معاشروں میں داخل ہوئی اور لوگوں نے اسے معمول بنا لیا۔ قرآن و حدیث میں گانے سننے اور موسیقی کو سختی سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود، بعض گروہ اور افراد نے اسے مذہب کا حصہ سمجھ کر اپنا لیا۔

 

گانا سننا سے مراد وہ نغمات اور دھنیں ہیں جو عام طور پر انسان کو دینی تعلیمات اور ذکر و اذکار سے دور کر دیتی ہیں۔ یہ دھنیں انسان کے جذبات پر اثر ڈال کر اسے غفلت اور غیر دینی کاموں میں مگن کر دیتی ہیں۔

 

تاریخ کے اوراق میں، گانا سننے کا رواج قدیم دور سے موجود ہے، لیکن اسلامی معاشرت میں یہ ایک ناپسندیدہ اور ممانعت شدہ عمل تھا۔ اسلامی تاریخ کے آغاز میں، اس طرح کے کاموں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔

 

دورِ جاہلیت میں گانا سننے کا رواج بہت عام تھا، جہاں لوگ تفریح کے لیے گانوں اور موسیقی کا سہارا لیتے تھے۔ اسلام نے جاہلیت کے اس عمل کی مذمت کی اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "گانے اور باجے دل میں نفاق پیدا کرتے ہیں"

 

پرانے زمانے کی قوموں میں بھی گانا سننے کا رجحان تھا، جیسا کہ بنی اسرائیل اور دیگر قوموں میں دیکھا گیا۔ قرآن کریم میں قوم نوح، عاد اور ثمود کی نافرمانی اور اللہ کی تعلیمات سے غفلت کے اسباب میں موسیقی کا ذکر بھی موجود ہے۔

 

اہل عرب میں دور جاہلیت کے زمانے میں موسیقی اور گانے کا بہت چرچا تھا۔ اشعار اور نغمات کو مختلف تقریبات میں گایا جاتا تھا۔ اسی طرح وسطی ایشیا میں بھی موسیقی کو اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اسلام نے ان غیر ضروری تفریحات کو ترک کرنے کا حکم دیا۔

 

مغربی دنیا میں گانا اور موسیقی تفریح اور اظہار خیال کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ جدید دور میں موسیقی کو روحانی سکون کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، مغرب میں اسلامی تعلیمات کی بجائے دنیاوی خوشیوں اور جذبات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔

 

بہت سے مذاہب میں گانا اور موسیقی کا رواج موجود ہے۔ ہندو مت، عیسائیت اور بدھ مت میں مختلف مذہبی تقریبات اور رسومات کے دوران موسیقی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ زرتشت مذہب میں بھی گانے اور موسیقی کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

 

ہندوازم میں گانا سننا اور گانا بنانا عبادت اور مذہبی رسومات کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ان کے مذہبی عقائد اور روایات میں موسیقی، رقص، اور گانے کو دی جانے والی روحانی اہمیت ہے۔ ہندوازم میں موسیقی کو دیوتاؤں کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور رقص و موسیقی کے ذریعے دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے۔

 

ہندوازم کے مختلف دیوی دیوتاوں جیسے کہ "بھگوان کرشن" اور "شِو" کے ساتھ موسیقی اور رقص کو گہرائی سے جوڑا جاتا ہے۔ بھگوان کرشن کی بانسری بجانے کی روایات اور بھگوان شِو کا تاندو رقص اس بات کی علامت ہیں کہ موسیقی اور رقص کو دیوتاؤں کی عبادت کا حصہ بنایا گیا۔ ہندو مذہب میں مانا جاتا ہے کہ موسیقی اور گانے کے ذریعے انسان دیوتاؤں کے قریب ہو سکتا ہے اور ان کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔

 

ہندو مت میں پوجا اور دیگر مذہبی رسومات جیسے کہ "بھجن"، "کیرتن"، اور"آرتی"میں گانے اور موسیقی کا استعمال عام ہے۔ ان رسومات کے دوران گانے اور موسیقی کے ذریعے دیوتاؤں کی تعریف کی جاتی ہے اور ان کے لیے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ موسیقی روح کو پاکیزگی کی طرف مائل کرتی ہے اور ذہنی سکون عطا کرتی ہے۔

 

ہندوازم میں رقص اور موسیقی کو تخلیق کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ "شِو کا تاندو رقص"، جو کہ تباہی اور تخلیق کی علامت ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ناچ اور گانا کائنات کی روحانی حرکت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح، ہندو مذہب کی مقدس کتابوں میں بھی موسیقی کو روحانیت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

ہندو رسومات میں ناچ گانے کو ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے روحانی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ "ویدوں"اور "اپنشدوں" میں موسیقی اور گانے کی تعریف کی گئی ہے اور اسے روحانی بیداری کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔

 

مگر بدقسمتی سے ہمارے مسلمان بھائی بہن اس غلاظت سے محفوظ نہ ہوسکے۔ آج امت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو اپنے دین کا علم نہیں لیکن گانے اور فلمی کہانیاں اور انکے کرداروں کے نام بخوبی یاد ہوتے ہیں، نماز پڑھنا ، یاد کرنا، قرآن پڑھنا، سیکھنا اور سکھانا انتہائی مشکل لگتا ہے لیکن گانے یاد کرنے ان گانوں پہ ڈانس کرنا آسان لگتا ہے۔آج ہمارے کالج ،یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے کہ جب تک بہنوں ، بیٹیوں کو سٹیج پر ناگن ڈانس نہ کروایا جائے ان کی تقریب ادھوری نظر آتی ہے۔

 

اسلام نے گانا سننے کی ممانعت اس لیے کی کیونکہ یہ انسان کو دنیاوی لذتوں میں مبتلا کرتا ہے اور اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو بے ہودہ باتوں کے خریدار بنتے ہیں تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے اللہ کے راستے سے گمراہ کریں"۔اس آیت مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گانا اور موسیقی دل میں نفاق پیدا کرتی ہے اور اللہ کی عبادت سے دور کر دیتی ہے۔

 

مختلف اسلامی مکاتب فکر میں گانے اور موسیقی کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ دیوبند، اہلحدیث، اور اہل تشیع کے نزدیک گانے اور موسیقی حرام ہیں، جبکہ بریلوی مکتبہ فکر میں بعض صورتوں میں نعتیہ کلام کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، عمومی طور پر ہر مکتبہ فکر گانے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیتا ہے۔

 

پاکستان میں گانا سننا ایک معمولی بات سمجھی جانے لگی ہے اور اسے معاشرتی تفریح کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا ہے۔ گانے اور موسیقی کو روح کی غذا سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس گناہ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف لوگوں کو دینی فرائض سے دور کر رہا ہے بلکہ معاشرے پر منفی اثرات بھی ڈال رہا ہے۔

 

گاناسننےکے گناہ کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کو دوبارہ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن اور حدیث کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں اس عمل سے بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی مذمت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو