google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 ظلمت و گمراہی میں توبۃالنصوح کے مواقع اور امام مہدی کی آمد (حصہ دوم) - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 31 اگست، 2024

ظلمت و گمراہی میں توبۃالنصوح کے مواقع اور امام مہدی کی آمد (حصہ دوم)

ظلمت و گمراہی میں توبۃالنصوح کے مواقع اور امام مہدی کی آمد (حصہ دوم)


ظلمت و گمراہی کے دور میں، توبۃالنصوح کی اہمیت اور امام مہدی کی آمد (حصہ دوم) میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب دنیا فتنوں، گمراہیوں اور ظلم کی اندھیریوں میں ڈوبی ہوگی، تو اس وقت بھی توبہ کے دروازے کھلے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے رحمت اور مغفرت کے مواقع فراہم کرتا رہے گا تاکہ وہ گناہوں سے توبہ کرکے راہ راست پر واپس آسکیں۔ توبۃالنصوح یعنی خالص توبہ، ایسی توبہ ہے جس میں انسان اپنے گناہوں پر حقیقی ندامت کا اظہار کرتا ہے اور عزم کرتا ہے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کرے گا۔ جب امام مہدی کی آمد ہوگی، تو وہ ظلم و ستم کی اس دنیا میں حق کا بول بالا کریں گے اور انسانیت کو دوبارہ انصاف، امن، اور ہدایت کی روشنی فراہم کریں گے۔ ان کی قیادت میں دنیا میں امن و امان کا دور شروع ہوگا اور مسلمان دوبارہ اپنے دین کی طرف راغب ہوں گے۔ اس دور میں توبۃالنصوح کرنے والے لوگ اللہ کے قریب ہوں گے اور امام مہدی کی قیادت میں دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہوگا۔





ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا " مہدی مجھ سے ہوگا"۔ یعنی میری نسل سے ہوگا۔ یہ تو اس کا نسب ہوا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی جسمانی صفات بیان فرمایا "وہ چوڑی پیشانی اور لمبی ناک والا ہوگا۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی  طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی حکومت سات برس تک رہے گی۔"


یعنی اس کے سر کے اگلے حصے کے بال کم ہوں گے یا  اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس کی پیشانی کشادہ ہوگی۔  اس کا نام نبی کریم ﷺ کے نام کی طرح ہوگا اور اس کے والد کا نام نبی کریم ﷺ کے والد کے نام کی طرح ہوگا۔ یعنی اس کا نام محمد بن عبداللہ ہو گا اور وہ نبی کریم ﷺ کے آلِ بیت میں سے ہوں گے (حضرت حسن بن علی کی نسل سے ہوں گے)

حضرت حسن نے اپنے والد گرامی سیدنا حضرت علی کی شہادت کے بعد حکومت سنبھالی تھی۔ لہذا اس وقت کے حالات میں مسلمانوں کے دو خلیفہ بن گئے تھے۔ عراق وحجاز وغیرہ میں حضرت حسن بن علی اور شام اور اس کے قریب وجوار میں حضرت امیر معاویہ۔ چھ ماہ کی حکمرانی کے بعد سیدنا حسن بن علی نے بغیر کسی دنیوی معاوضے کےمحض اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر حکومت سے علیحدگی اختیار  کرلی اور سیدنا امیر معاویہ کے حق میں دست بردار ہوگئے تاکہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا ہو جائے ان سب کا حکمران ایک ہی شخص ہو اور ان  کے درمیان خونریزی  نہ ہو۔ اللہ رب العزت نے ان کے اس عمل میں برکت ڈالی اور انھیں اس کا اچھا بدلہ دیا۔ جو کوئی  بھی اللہ رب العزت کی خاطر کسی چیز کو چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ رب العزت اس کو یا اس کی اولاد کو اس سے افضل چیز عطا کر دیتا ہے۔


امام مہدی سات برس تک مسلمانوں کے حکمران رہیں گے اور وہ اس دوران زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح کہ وہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوئی تھی۔

ان کے عہد میں امت بہت خوش حال ہو گی ۔ زمین اپنی پیداوار بڑھا دے گی۔ آسمان سے خوب بارشیں ہونگی  اور وہ لوگوں کو گنے بغیر مال دیں گے۔

جیسا کہ ایک   میں بیان فرمایا گیا " میری امت کے آخری زمانے میں مہدی کا ظہور ہو گا۔ اللہ رب العزت اس کے دور میں خوب بارشیں برسائے گا۔ زمین خوب اپنی پیداوار نکالے گی۔ وہ لوگوں میں برابری کی بنیاد پر مال تقسیم کرے گا۔ مال مویشی کی کثرت ہو جائے گی اور امت اسلام عظیم امت بن جائے گی۔ وہ سات یا آٹھ بر س زندہ رہے گا۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا " پھر اس کے چلے جانے کے بعد زندگی میں کوئی خیر و بھلائی نہ رہے گی۔" روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کی وفات کے بعد ایک بار پھر شروفساد اور عظیم ترین فتنے سر اٹھا لیں گے۔


ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پھر اس کے چلے جانے کے بعد زندگی میں کوئی خیر و بھلائی نہ رہے گی۔" اس حدیث سے مراد امام مہدی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا دور ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام مہدی اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بعد دنیا میں پھر سے شروفساد کا دور شروع ہوگا۔ امام مہدی کے زمانے میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہوگا، دنیا بھر میں امن و امان کی فضا قائم ہوگی، اور لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل پیرا ہوں گے۔ مگر جب امام مہدی کا وقت ختم ہوگا اور وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، تو شیطان اور اس کے پیروکار ایک بار پھر سے اپنے فتنوں اور گمراہیوں کے جال بچھا دیں گے۔

 

امام مہدی کی وفات کے بعد لوگوں کے دلوں سے ایمان کی روشنی مدھم پڑنے لگے گی، اور دنیا ایک بار پھر ظلمت و گمراہی کی تاریکی میں ڈوب جائے گی۔ شروفساد کے عظیم ترین فتنے سر اٹھا لیں گے، اور لوگ دنیا کی چکاچوند میں کھو جائیں گے۔ اس دور میں فتنہ و فساد کی شدت اتنی ہوگی کہ عام انسان کے لئے حق اور باطل میں تمیز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لوگ دین سے دور ہوجائیں گے، اور شیطان کے وسوسے ان پر غالب آجائیں گے۔ امام مہدی کے زمانے میں جو خیر و بھلائی دنیا میں تھی، وہ ان کے جانے کے بعد ناپید ہو جائے گی۔ یہ وہ دور ہوگا جب دنیا آخری مراحل میں ہوگی اور قیامت کی نشانیاں واضح طور پر ظاہر ہونے لگیں گی۔ لوگوں کے دلوں میں ایمان کمزور ہوجائے گا، اور دنیا فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہوجائے گی۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ایک بار پھر دنیا کو حقیقی ہدایت اور روشنی کی ضرورت ہوگی، جو صرف اللہ کی طرف رجوع کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔

                

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو