غفلت
میں چھپے 50 گناہ
20-
مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا
غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں بیسواں گناہ مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا ہے ۔ اس سے
پہلےتواتر سے کئی آرٹیکل جو میں تفصیل سے شئیر کر تا آرہا ہوں اگر آپ ان کو پڑھنا چاہیےتو
نیچے دئیے گئے ویب سائٹ لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ، کسی جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا وغیرہ۔
اسلام میں مال کو ایک نعمت اور امتحان دونوں سمجھا گیا ہے۔
جسے بھی مال عطا کیا جاتا ہے، اس سے یہ سوال ہوگا کہ اس نے مال کہاں سے کمایا اور
کہاں خرچ کیا۔ ایک سنگین گناہ جس کا ذکر اسلامی تعلیمات میں آیا ہے، وہ ہے مال کو
گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا۔ یہ فعل نہ صرف آخرت کے نقصان کا سبب بنتا ہے بلکہ دنیا
میں بھی بہت سی برائیوں اور فسادات کو جنم دیتا ہے۔
مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرنے کا مطلب ہے کسی بھی ایسے
فعل پر مال خرچ کرنا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی میں آتا ہو۔ اس میں ہر
وہ کام شامل ہے جو شریعت کی نظر میں ناجائز ہو، جیسے کہ شراب، جوا، رشوت، بدکاری،
ظلم، بے ایمانی، فحاشی، اور دیگر گناہ۔ اس کے علاوہ وہ اعمال بھی شامل ہیں جنہیں
دنیاوی مفاد کے لئے انجام دیا جاتا ہے لیکن وہ اسلامی اخلاقیات کے منافی ہوتے ہیں۔
دورِ جاہلیت میں لوگوں کا گناہ کے کاموں میں
خرچ کرنا
دورِ جاہلیت میں لوگ مال کو گناہوں اور فضولیات میں بے دریغ
خرچ کرتے تھے۔ شراب خوری، جوا، اور بت پرستی کے لئے لوگ بڑی مقدار میں مال خرچ
کرتے تھے۔ عرب معاشرے میں جوا ایک مقبول سرگرمی تھی اور لوگ اپنا مال جیتنے یا
ہارنے کے لئے بڑی تعداد میں خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح، بتوں کی پوجا اور دیگر غیر
اسلامی رسومات میں بھی مال خرچ کیا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں اس دور کے لوگوں کی
زندگی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:"اور
تمہاری محبت میں خالص گناہ اور حد سے زیادہ فضول خرچی شامل ہے۔"
دوسرے مذاہب عالم میں گناہوں کے کاموں میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور مال خرچ کرنا
دوسرے مذاہب میں بھی گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنے کا
رجحان پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہندو مت میں مذہبی رسومات کے نام پر غیر شرعی
طریقوں میں مال خرچ کیا جاتا ہے، جیسے کہ ماضی میں ستی کی رسم اور بتوں کی پوجا کے
لئے بھاری مال و زر خرچ کیا جاتا تھا۔
عیسائیت میں بھی قرون وسطیٰ کے دور میں مال کو غیر قانونی
اور غیر اخلاقی کاموں میں خرچ کرنے کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ بعض اوقات چرچ کی
سرپرستی میں مال و دولت کو غیر قانونی سرگرمیوں پر خرچ کیا گیا۔
بدھ مت، یہودیت اور دیگر مذاہب میں بھی مختلف اوقات میں
گناہوں کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔
اسلام نے مال خرچ کرنے کے لئے کیا ہدایات دی
ہیں اور برے کاموں پر خرچ کرنے کے لئے کیا احکامات دئیے ہیں؟
اسلام نے مال کو ایک اہم امتحان قرار دیا ہے اور اس کے خرچ
کرنے کے اصول واضح طور پر بتائے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"اور اللہ کی راہ میں
خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان کرو، بے شک اللہ
احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"یہ آیت ہمیں اس بات کی طرف متوجہ
کرتی ہے کہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے اور اسے غلط یا گناہ کے کاموں میں
خرچ نہیں کرنا چاہئے۔
حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"انسان قیامت کے دن اس وقت تک اپنے قدم نہیں اٹھا سکے گا جب
تک کہ اس سے یہ سوال نہ کیا جائے کہ اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔"اس
حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے مال کی حلال کمائی اور صحیح
مصرف کی جوابدہی کرنا ہوگی۔
اسلام نے واضح طور پر گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنے سے
منع کیا ہے۔ جیسے کہ شراب نوشی، جوے، فحاشی، اور ظلم و ستم میں مال خرچ کرنا سختی
سے منع ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"شیطان
تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے کے ذریعے آپس میں دشمنی اور بغض میں مبتلا
کر دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔" یہ آیت ہمیں اس بات
کی تعلیم دیتی ہے کہ گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنا ہمیں دین سے دور کرتا ہے اور
ہماری آخرت کے لئے نقصان دہ ہے۔
دورِ حاضر میں حرام کمائی کا حرام کاموں پر
خرچ کرنا اور ثواب کی نیت رکھنا
آج کے دور میں حرام کمائی کا رجحان بہت زیادہ ہے اور لوگ
اپنی حرام کمائی کو حرام کاموں میں خرچ کرتے ہیں، جیسے کہ جوا، رشوت، اور دیگر
ناجائز ذرائع۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی حرام کمائی کا کچھ حصہ صدقہ
کریں یا مسجد میں خرچ کریں تو وہ ان گناہوں سے بچ جائیں گے۔ لیکن یہ ایک بہت بڑی
غلط فہمی ہے۔اسلام میں حرام کمائی کو صدقہ کرنے یا نیک کاموں میں خرچ کرنے کا کوئی
ثواب نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"اللہ پاک
ہے اور وہ صرف پاکیزہ چیزوں کو قبول کرتا ہے۔" اس حدیث کا مطلب یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ صرف حلال ذرائع سے حاصل کی گئی چیزوں کو قبول کرتا ہے، اور حرام
مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اس گناہ سے کیسے بچیں؟
مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرنے سے بچنے کے لئے ہمیں چند
اہم باتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا:
حلال کمائی: سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی کمائی کو حلال ذرائع سے
حاصل کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہے، اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین
سے پیدا کیا ہے، اس میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو۔" یہ آیت ہمیں حلال کمائی کی اہمیت کا درس دیتی
ہے اور اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ ہم اپنی کمائی کو پاکیزہ ذرائع سے حاصل کریں۔
دین کی سمجھ بوجھ: ہمیں دین کی تعلیمات کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے
تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کون سے کام گناہ ہیں اور کون سے نیک کام ہیں۔
فضول خرچی سے پرہیز: ہمیں اپنی زندگی میں فضول خرچی سے پرہیز کرنا چاہئے اور
اپنے مال کو صرف ان کاموں میں خرچ کرنا چاہئے جو اللہ کی رضا کے لئے ہوں۔
نیت کی درستگی: جب بھی ہم کوئی خرچ کریں، ہماری نیت یہ ہونی چاہئے کہ ہم
اللہ کی رضا کے لئے خرچ کر رہے ہیں نہ کہ دنیاوی مفاد کے لئے۔
گناہوں سے دوری: ہمیں گناہ کے کاموں سے مکمل طور پر دور رہنے کی کوشش کرنی
چاہئے، چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں۔ جیسے کہ رشوت، جوا، اور فحاشی وغیرہ۔
تقویٰ اور خود احتسابی: ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ہم اپنے
مال کو کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "سمجھدار وہ
شخص ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کرے۔"
مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا ایک سنگین گناہ ہے جو نہ
صرف آخرت کے نقصان کا سبب بنتا ہے بلکہ دنیا میں بھی ہمیں مشکلات میں مبتلا کر
سکتا ہے۔ اسلام نے ہمیں واضح ہدایات دی ہیں کہ ہم اپنے مال کو حلال ذرائع سے حاصل
کریں اور اسے نیک کاموں میں خرچ کریں۔ گناہوں کے کاموں میں مال خرچ کرنا نہ صرف
اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے بلکہ ہمارے دین و دنیا دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
ہمیں اس گناہ سے بچنے کے لئے تقویٰ، دین کی سمجھ بوجھ، اور اپنے اعمال کا محاسبہ
کرتے رہنا چاہئے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ
کریں۔
well said
جواب دیںحذف کریں