قوم کی قیادت گٹھیا اور فاسق لوگوں کے ہاتھوں میں کیوں ہوگی؟
محترم قارئین کرام ! ایک وقت تھا جب لوگوں کے گھر کچے ہوا کرتے تھے لیکن دلوں میں تقویٰ اور خداخوفی مضبوط ہوا کرتی تھی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹ لیا کرتے تھے جہاں خوشیاں سب کے لئے سانجھی ہوا کرتی تھیں وہیں دکھ بھی سب کے لئے برابر ہوا کرتا تھا۔
وقت کی تیز رفتاری اور ٹیکنالوجی کی ایسی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں نہ وہ ایمان رہے ، نہ کچے گھر، بلکہ لوگوں کے رویے ، اٹھنے بیٹھنے ، روزگار کمانے اور خرچ کرنے کے طور طریقے ہی بدل گئے۔ چار پیسے کمانے والوں نے خرچ کرنے کی بجائے دولت کو جمع کرنا شروع کر دیا ، رفتہ رفتہ لوگوں کے خون کب سفید ہوئے ، کب سفاکیت کا لبادہ اوڑھ لیا ، کب چہروں پہ چہرے لگا لئے پتہ ہی نہ چلا۔
محبتوں کو بانٹنے والے وہ ہاتھ، دل وہ چہرے، جھوٹ اور سفاکیت ، حلال وحرام ، ظلم وستم ، حتی کہ عزتوں کو پامال کرنے والے جان کے دشمن بن بیٹھے، نا خدا خوفی رہے اور نا ہی اللہ کے احکامات کی پاسداری ۔
دور ِ حاضر میں قیامت کی بہت سی نشانیاں ہم اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم کب بدلیں گے، کب اپنے آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے راستےاور طورطریقوں پر زندگیاں گزارنا شروع کریں گے؟ اس معاشرے سے علم ختم ہوتا جارہا ہے، ہر طرف گمراہیوں اور فتنوں کے بڑھتے ہوئے اندھیرے ہمیں اپنی طرف کھینچتے چلے جارہے ہیں۔
آپ ﷺ نے امت کی بھلائی اور خیرو عافیت کے لئے قدم قدم پر راہنمائی فرمائی ، قیامت کی ان بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی فرمائی کہ "قبائل کی قیادت جھوٹے اور فاسق لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی"اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا " قبیلے کا سب سے گھٹیا اور فاسق انسان ہی معزز تصور کیا جائے گا یعنی اس قبیلے /علاقے کا سربراہ ایک ایسا انسان ہوگا جو گھٹیا ترین ہوگا۔اور اسی گھٹیا پن کی وجہ سے معاشرے میں امن وامان کی فضابرقرار نہ رہ پائے گی اور ظلم وستم کا راج ہوگا اور جب ایسی حالت ہوگی تو ویرانگی راج کرے گی۔ اگر ہم پچھلے سال کرونا کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو ایسا نہیں لگتا تھا کہ ہر طرف ویرانگی ہی ویرانگی نے ڈیرے ڈال لئے ہوں اور اس شہر یا ملک کی خوشیوں کو نظر سی لگ گئی ہو۔
اب الیکشن کی تیاریاں شروع ہونے جارہی ہیں جہاں آپ کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا جن کو آپ نے شاید اپنی پوری زندگی میں ایک بار یا ہوسکتا ہے کبھی دیکھا بھی نہ ہو۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ اہل علاقہ کی بہتری کرے گا یا نہیں اور اس کو ووٹ دے دیتے ہیں اور پھر جب تک حکومت رہتی ہے ہم اس شخص کو کوستے رہتے ہیں۔
شرعی اصول یہ ہے کہ قیادت زیادہ صالح، زیادہ علم والے اور زیادہ موزوں لوگوں کے ہاتھوں میں سونپی جائے۔جو معاشرے میں عدل اور انصاف کا بول بالا کر سکیں مگرافسوس! ایک زمانہ آئے گا کہ قوموں کی قیادت فاسق اور کمتر کے ہاتھوں میں آجائے گی۔ اس کا سبب یہ ہو گا کہ ان بُرے لوگوں کے پاس مال اور تعلقات کی کثرت ہوگی یا ان کی جرات و دلیری اور بلند حسب و نسب کے باعث قیاد ت ان کے ہاتھ میں آجائے گی۔ بلکہ جو سب سے زیادہ گھٹیا اور برا ہو گا اسی کو یہ منصب سونپا جائے گا۔کسی بھی حال میں قوم کی سرداری کسی نیک اور منصف مزاج شخص کے ہاتھ میں ہرگزنہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہونے لگے گی تو باقی تمام لوگ اس کا بائیکاٹ کریں گے اور اس طرح اس کو منصب نہیں سونپا جائے گا۔ (واللہ اعلم)
دراصل ایسی صورت حال زمانے کے بگاڑ کے باعث پیدا ہوگی یا پھر اس کا سبب یہ ہو گا کہ کمینے اور گھٹیا لوگوں کی کثرت ہوتی چلی جائے گی۔ ان لوگوں کے پاس دین کا علم نہ ہونے کے برابر ہوگا بلکہ ذاتی حیثیت اور بنیادی ترجیحات کی بنا پر فیصلے کئے جائیں گے ۔ ان لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا کوئی جیے یا مرے۔
معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز تقریبا ختم ہوجارہی ہے انسان کے کردار کچھ اور عملا کچھ ہوتے جارہے ہیں، یہاں تک کہ لوگ تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں جسکو جہاں مفاد ملا اسی کا ہو لیا، آج ہمارے ملک کی حالت بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے ، دن بدن مہنگائی اور ڈاکہ زنی ، لوٹ مار، ناجائز تعلقات کی بنا پر قتل وغارت وغیرہ آپ ﷺ کے فرمان کے منہ بولتے ثبوت ہیں جو میں نے اوپر ذکر کئے ہیں۔
ایک وقت آئے گا جب ظلم وستم حد سے بڑھ جائیں گے تومعاشرے میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے ریاست کے ٹھیکدار ایسی فوج کو بھیجے گی جو زور زبردستی ملک میں امن قائم کرنے کی ناکام کوشش کریں گی۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق:
فرمایا کہ" ظالم و جابر حکمرانوں کے کارندے لوگوں کو ایسے کوڑوں سے ماریں گے۔ جو گائے کی دم سے مشابہ ہوں گے۔ ان کوڑوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ جن میں چمڑے کے ، بجلی کے، ربڑ یا پلاسٹک کے درختوں کی شاخوں سے بنے ہوئے کوڑے شامل ہیں"۔
ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا "آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے پاس گایوں کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے ۔ یہ (ظالم) اللہ کی ناراضگی کی حالت میں صبح کریں گے اور اسکے غیظ وغضب کی حالت میں ہی شام کریں گے"۔
ایک اور رویت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا " جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنھیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ، ان میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے ان سے وہ لوگوں کو ماریں گے"۔
ایک اور رویت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" اگر تمھاری عمرنے وفا کی تو بہت ممکن ہے کہ تم ایک ایسی قوم دیکھوں جو اللہ کی ناراضگی کے عالم میں صبح کرے گی اور اسکی لعنت کی حالت میں شام کرے گی۔ ان کے ہاتھوں میں گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے۔
اس حدیث میں لوگوں کو مارنے کا ذکر نہیں لیکن ان پر اللہ کی ناراضگی اور لعنت کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگوں پر کثرت سے ظلم وزیادتی کریں گے۔
اہل دانش کہتے ہیں کہ وہ ریاستی پولیس کا محکمہ ہو سکتا ہے۔ جو اس احادیث کے مطابق ظلم و جبر کریں گے پولیس گردی کے لاتعداد واقعات ہم آئے روز پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں ماضی قریب میں لاہور کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔ عدلیہ کے خاموش اور بند کمروں میں کیے جانے والے فیصلے بھی ہم سب کے سامنے روزروشن کی طرح ہیں، لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی آہیں ، سسکیاں ،آنسو اور بددعائیں اللہ کی مخلوق کو ناجائز تکلیف پہنچانا درحقیقت اللہ رب العزت کی ناراضگی اور غیظ و غضب کو دعوت دینا ہے۔
اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ اس ملک میں کسی اہل علم، نیک و پارسا اور عادل حکمرانوں کو ہم میں بھیج جو قوم میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
Well said
جواب دیںحذف کریںBohat behtreen
جواب دیںحذف کریںzabardast
جواب دیںحذف کریںkafi mufeed malomat hai
جواب دیںحذف کریںKia baat hai
جواب دیںحذف کریںyeh to aj kal humary mulk main ho raha hai
جواب دیںحذف کریں